سید اطہر حسین نقوی
زندہ قومیں ہمیشہ اپنے نوجوانوں پر ناز کرتی ہیں کیونکہ یہی نسل ملک کی تعمیر وترقی، کامیابی اور خوشحالی میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتی ہے۔ صحت مند ذہن کی حامل، اپنی ذمہ داریوں سے باخبر، مستعد اور قوت فیصلہ سے آراستہ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا گراں بہا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ شروع ہی سے خاندانی، گروہی اور قومی سطحوں پر ان کی پرداخت بامقصد اور نہایت ذمہ دارانہ طریقے سے کی جائے۔ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں افرادی قوت میں 60 سے70 فیصد نوجوان اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور انہیں لگن ہے کہ وہ مزید اچھے طریقے سے اپنے وطن کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکیں۔ کیونکہ اب ہم 21ویں صدی میں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ دور میں نوجوانوں کو ہر سطح اور ہر میدان میں وہ تمام وسائل، سہولیات اور مواقع وافر مقدار میں فراہم کئے جائیں جس کے وہ مستحق ہیں اور اس کو بنیاد بنا کر ان میں آگے بڑھنے کا جذبہ، لگن اور جستجو پیدا ہو کہ وہ اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم مل جائے جہاں وہ شعوری طور پر مکمل ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
اس ضمن میں یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان نے نوجوانوں کی اہمیت اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی رہنمائی کے لئے قومی یوتھ کونسل کے قیام کی منظوری دے دکر ایک عہد ساز فیصلہ کر کے پاکستانی نوجوانوں کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے۔ جس کا کابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ یوتھ کونسل کے چیئرمین جناب عثمان ڈار صاحب ہیں اسی لئے اس کو پرائم منسٹر یوتھ آفیر PMYA بھی کہا جا رہا ہے۔ ابتدائی طور پر اس قومی یوتھ کونسل کے 33 ممبران ہیں، جن میں 9 سرکاری اور 24 پرائیوٹ ممبرز ہیں۔ ان میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اہم نوجوان شخصیات کو اس کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔ جن میں ہمارے قومی محافظ میجر تنویر شفیع ہیں، نیز کھیلوں کے شعبے سے نوجوان کرکٹر حسن علی اور ثنا میر، اداکاری کے شعبے سے حمزہ علی عباسی اور ماہرہ خان، مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کرنے والی ثمینہ بیگ اس کے علاوہ مبینہ مزاری کے نام شامل ہیں۔ متذکرہ کونسل کے قیام کا مقصد 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں کی ترقی اور انہیں با اختیار بنانے کا کام کرنا ہے۔ نوجوانوں کی عمر کا یہی عرصہ ان کی ذہنی پرداخت کا ہوتا ہے۔ اس دوران ان کی ہر میدان میں حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
عہد حاضر میں جہاں اب بھی تیسری دنیا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان بھی ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جب تک ہم اپنے بنیادی مسائل تعلیم، روزگار اور کمزور معیشت پر قابو نہیں پا سکتے، ہم ترقی نہیں کر سکتے، جس کا اندازہ سب کو بخوبی ہے۔ پاکستان کی آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ نسلِ نو پر محیط ہے، جو پاکستان کا روشن مستقبل ہیں۔ قومی یوتھ پالیسی کے قیام سے سب سے زیادہ استفادہ ہماری نئی نسل کو ہو گا۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ، نوجوان آگے بڑھیں انہیں وہ تمام وسائل اور سہولتیں فراہم کی جائیں، جو دیگر ترقی یافتہ ممالک میں نوجوانوں کو میسر ہیں، نوجوانوں کی مثبت سوچ کو دنیا کے سامنے رکھا جائے، کیونکہ ہمیں ہر میدان میں ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ جس سے ہم اپنے ملک میں نہ صرف ایک استحکام کی پالیسی بنا سکتے ہیں، بلکہ تعلیمی، صنعتی اور معاشی انقلاب بھی لا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں قومی یوتھ کونسل کے توسط سے حکومت تمام سطحوں پر پالیسی سازی کے عمل میں نوجوانوں کو شریک کرے گی۔ متذکرہ کونسل کا دائرہ صرف وفاق تک محدود نہیں ہے۔ اس میں چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت اور آزاد کشمیر کے نوجوان نسل کے نمائندے بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ جس کے باعث تمام ممبران ایک نشست پر بیٹھ کر آپس میں تبادلہ خیال کر سکتے ہیں اور مفید مشورے اور اپنی آرا سے ایک دوسرے کو آگہی دے سکتے ہیں، اسی سے آپس میں محبت، خلوص، امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہوگی۔ خاص کر وہ تمام نوجوان نسل کے نمائندے جن کی اپنے شعبہ جات کی وجہ سے ایک پہچان ہے اور ایک IGN کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کو قومی یوتھ کونسل میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسکول، کالج اور جامعات سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کے علاوہ نوجوانوں کی سماجی تنظیمیں بھی اس کا مستقل بنیادوں پر حصہ بن سکتی ہیں۔ وہ ادارے جو اسپیشل اور معذور نوجوانوں کے لئے کام کر رہے ہیں، اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
حکومت کے اس مستحسن اقدام سے اب اس بات کی ضرورت دو چند ہو گئی ہے کہ، ملک میں تعلیمی شعبے پر سب سے زیادہ اور خصوصی توجہ دی جائے، کیونکہ اسکول و کالج قومی یوتھ کونسل کی نرسریاں اور جامعات ان کے بیس کیمپ ہونے کا درجہ رکھتی ہیں ماضی میں سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ اور سرکاری طور پر محض رسمی کارروائی کے لئے نوجوانوں کی تنظیمیں بنا کر محض ان کا وقت ہی ضائع کیا گیا۔ اگر مفکر ِپاکستان اور بانیٔ پاکستان کی سوچ اور خطوط پر قیام پاکستان ہی سے قومی یوتھ پروگرام پرعمل پیرا ہوتا تو بلاشبہ آج ملک و قوم اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہوتے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے کہ متذکرہ یوتھ پروگرام میں ہر طبقے کے نوجوانوں کو شریک کیا جائے اور خلوص نیت سے اس پروگرام پر عملدرا ٓمد کیا جائے۔
اس کے قیام کا اولین مقصد ایک باشعور معاشرے کی تشکیل نو ہے، ہم اپنی روایات اور فن و ثقافت کو دنیا میں روشناس کرائیں اور جن شعبہ جات سے نوجوان اس یوتھ کونسل میں شریک ہونا چاہیں ان کا خیر مقدم کریں۔ اس فورم کے توسط سے ایسے پروگرامز آرگنائز کئے جائیں جن سے نوجوانوں میں مقابلے کا رجحان پیدا ہو اور ایک نئے جذبے اور لگن کے ساتھ اپنی اخلاقی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی ذمہ داریوں کا تعین کر سکیں۔
اس وقت دنیا میں دس سے زائد ممالک میں یوتھ کونسل کام کر رہی ہیں۔ جس کے تحت نوجوانوں کے حقوق کے تحافظ کو یقینی بنایا جا رہا ہے، ان کی ترجیحات میں نوجوانوں کی آواز کو بلند کرنا ہے۔ ان کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ معاشرتی استحصال کا خاتمہ کرنا ہے اور وہ تمام مراعات و مسائل ان کو فراہم کرنا ہے، جو ایک شہری ہونے کے ناطے ان کا حق بنتا ہے۔ یہ تمام کونسل اپنے منشور کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان نے قومی یوتھ کونسل قائم کر کے حکومت کی جانب سے، نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے جو ان کے بہتر مستقبل کا ضامن بن سکتا ہے۔ ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کامیابی کی نئی راہیں استوار کر سکتا ہے، اس قومی یوتھ کونسل میں شامل ہو کر ہم اپنے خوابوں کو مکمل کر سکتے ہیں۔ ہمیں سر سید احمد خان سے لے کر محسن پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کے اقوال اور افکار کی روشنی میں اک ایسی منزل کا تعین کرنا ہے، جس سے ہم جلد از جلد ترقی یافتہ قوموں کی صنعت میں شامل ہو سکیں۔