میں ایک بار پھر سگریٹ نوشی پر لعنت بھیجتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سگریٹ پر ٹیکس چار گنا بڑھا دیں تاکہ میرے جیسے سگریٹ کے ’’نشئی‘‘ بھی اس پر چار حرف بھیجنے پر مجبور ہو جائیں۔ اب حسب وعدہ ادیبوں اور دانشوروں کی ان جگتوں کی دوسری قسط پیش کرتا ہوں جن سے میں نے اپیل کی تھی کہ وہ سگریٹ نوشی سے میرے چھٹکارے کی دعا کریں۔ میں نے تو یہ سوچ کر انہیں دعا کے لئے کہا تھا کہ یہ سنجیدہ لوگ ہیں، میری اپیل کو بھی سنجیدہ لیں گے مگر مجھے کیا پتا تھا کہ یہ بھی اس قوم کے فرد ہیں جن کی حکومتیں دہشت گردی پر کنٹرول کے لئے ڈبل سواری پر پابندی عائد کر کے اپنے اس اقدام پر ہمیں ہنسنے کا موقع دیتی ہیں۔ بہرحال ستم ظریفوں کے تبصرے ملاحظہ ہوں، سید اسامہ شیرازی کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی ترک کرنا کون سا مشکل کام ہے، میں خود چالیس پچاس مرتبہ چھوڑ چکا ہوں، انیق بٹ کہتے ہیں، ’’آپ سگریٹ پر ٹیکس ادا کرکے ملکی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں یہ قومی خدمت جاری رکھیں‘‘۔ مظہر الحق بٹ میرے مرحوم افسانہ نگار دوست ضیاء بٹ کے صاحبزادے ہیں، کہتے ہیں آپ بےفکر ہوجائیں میرے دادا چین اسموکر تھے، انہوں نے ننانوے برس عمر پائی۔ میرے والد ضیاء بٹ بھی آپ ہی کی طرح سگریٹ پر سگریٹ سلگاتے تھے اور وہ 87برس زندہ رہے۔ اصغر ندیم سحر نے لکھا ہے کہ ہمیں مایوس تو مت کریں، ہم نے تو ایک عرصہ سے آپ کے پیچھے نیت باندھی ہوئی ہے۔ برادرم اشرف نقوی کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی کو آپ سے پیار ہے اصل میں اسے گوارا نہیں کہ آپ اسے چھوڑیں، راشد محمود بھٹہ نے لکھا ’’مشکل ہے بہت مشکل‘‘۔ زاہد سحر نے بھی وہی بات کہی جو اشرف نقوی نے کہی تھی، جویریہ مجید نے بھی یہی لکھا کہ جاری رکھیں وہ آپ سے پیار کرتی ہے، جہانزیب سیفی نے’’نصیحت‘‘ کی کہ سگریٹ سے نفرت نہ کریں، نفرت بری چیز ہے شاید وہ میری سگریٹ نوشی اور میری صحت دونوں کو عمدہ رکھنے کے لئے دعا گو ہیں۔ ٹورنٹو سے سعید میو نے لکھا کہ آپ تو چھوڑنا چاہتے ہیں اگر وہ نہیں چھوڑنا چاہتی تو، ’’سگریٹ سے تعلق جاری رکھیں‘‘ مکرم عزمی کا کہنا ہے چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافرہ۔ پیرزادہ صدام حسین شاہ نے لکھا کہ اتنی طویل رفاقت کے بعد چھوڑنا بےوفائی ہے۔ سویڈن سے امجد شیخ لکھتے ہیں ’’میں جب آپ سے پہلی بار 2008میں ملا تھا، مجھے سگریٹ پئے چار برس ہوئے تھے، مجھے بڑا حسد محسوس ہوا تھا آپ کی چین اسموکنگ سے۔ اب گیارہ برس مزید گزر گئے ہیں، مجھے سگریٹ ترک کئے سولہ برس ہوگئے ہیں اور آپ کی ’’منہ چڑھی‘‘ ابھی تک لگی ہے، بس پئیں اور جئیں!‘‘ عزیز جواد فیضی کہتے ہیں آپ پر سگریٹ نوشی جچتی بہت ہے، بس لگائے بغیر سگریٹ ہونٹوں میں دبائے رکھیں۔ طاہر پرداز ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں، انہوں نے پنجابی میں لکھا ’’جس کا ترجمہ یہ ہے کہ لگائیں پھر آخری کش اور پیکٹ ختم کرکے چھٹکارا حاصل کریں‘‘۔ منشاء قاضی کی بات سمجھ نہیں آئی ’’سگریٹ، سکریٹ کے قریب‘‘ جرمنی سے خوبصورت شاعر جمیل الرحمٰن ’’برات عاشقاں برشاخ آہو‘‘، میرے مرحوم دوست شاعر کے ہونہار صاحبزادے اور ماہنامہ تخلیق کے ایڈیٹر عدنان اظہر کا سلامتی تبصرہ یہ ہے ’’ہم بھی جانتے ہیں جو ہم پر گزر گئی‘‘ خضر حیات خان کی پنجابی جگت سمجھ تو نہیں آئی مگر اندازہ ہے کہ کوئی مزے کی بات تھی۔ میرے دوست پروفیسر مظہر کی کالم نگار بیگم رفعت چودھری لکھتی ہیں ’’اگر سگریٹ چھوڑنے کی دعا قبول ہوتی تو مظہر صاحب کب کے سگریٹ چھوڑ چکے ہوتے‘‘۔ طارق چغتائی نے پوچھا ہے ’’اپنی سگریٹ نوشی سے نفرت ہے یا دوسرے کی خصوصاً جب وہ پی رہا ہو اور صلح نہ مارے‘‘۔ ندیم ملک کی فرمائش ’’ایک سگریٹ دیجئے گا‘‘۔ برادرم رانا غضنفر عباس خان کا مشورہ ہے کہ سگریٹ آپ کی شخصیت کا حصہ بن چکی ہے، جاری رکھیں، بس سگریٹ کی ڈمی ہونٹوں سے لگائے رکھیں‘‘۔ خالد بھوترل کی پیش گوئی ہے کہ اس معاملے میں ا.پ کے لئے دعائیں بےاثر ہیں، زاہد حسین زیدی کی پھلجڑی بھی دیکھے’’مجھے تو سگریٹ سے اس حد تک نفرت ہوچکی ہے کہ روز سگریٹ کی دو ڈبیاں ختم کرتا ہوں تاکہ یہ غلاظت دنیا سے جلد ختم ہو۔‘‘سید بادشاہ نفرت تو میں آپ سے زیادہ کرتا ہوں، تبھی تو تین ڈبیاں گزشتہ ساٹھ سال سے روزنہ ختم کررہا ہوں، فاروق طرازجو امریکہ چھوڑ کر پاکستان آچکے ہیں کہتے ہیں’’اب چھوڑ کر سگریٹ کی بددعا بھی نہ لیں۔‘‘ ڈاکٹر سعید مظہر عباس بخاری نے اپنے دو شعر لکھ بھیجیں ہیں؎
ایک مردہ کہہ رہا تھا یہ کسی سے قبر میں
کیا زمانہ آگیا کوئی کرے، کوئی بھرے
دکھ سہے ہم نے مزے سے عیش وہ کرتا رہا
رات دن پی اس نے سگریٹ، کینسر سے ہم مرے
محمد ظہیر بدر کہتے ہیں ہر ہفتے سگریٹ چھوڑنے کی پریکٹس کریں، پریکٹس میکس اے مین پرفیکٹ۔ جاوید ظفر صاحب کے مشورے سے لگتا ہے کہ یہ کوئی کٹر ’’پٹواری‘‘ ہیں، اللہ انہیں ’’ہدایت‘‘ دے، پشاور سے ایک بہت خوبصورت شاعر اور کالم نگار حماد حسن نے برادرم محمود شام کا شعر لکھ بھیجا ہے؎
اڑتی ہے دل کے فرش پہ بیتے دنوں کی راکھ
میں ہوں تیرا خیال ہے اور سگریٹ کی راکھ
طلحہ طارق سلمی کا مشورہ ہے کہ آپ روزانہ جتنے سگریٹ پیتے ہیں، وہ پیتے رہیں، ایک سگریٹ صدقہ کردیا کریں، ذوالفقار علی ستوئی کی ’’کالی‘‘ زبان ملاحظہ فرمائیں ’’سر اب آپ بونس پر چل رہے ہیں، 72کی عمر کے بعد چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔اس کے علاوہ تین چار دوستوں نے میری دعا کی فرمائش پر صاد کیا ہے، کچھ ڈاکٹر حضرات نے مشورے دئیے ہیں، کچھ نے ٹوٹکے بھیجے ہیں، دعائیں بےشمار لوگوں کی ملی ہیں مگر یہ جو اپنا ابرار ندیم ہے نا، پنجابی کا خوبصورت شاعر اور نثری مزاح نگار اس نے پورا فکایہ کالم لکھ بھیجا ہے، اسے بھی اگر یہ سگریٹ کی لت پڑی ہوتی تو ہم ایسے مظلوموں کا مذاق نہ اڑاتا۔ اس نے ایک حر کت اور کی اور وہ یہ کہ ایک مجسمے کے منہ میں سگریٹ دیتے ہوئے میری تصویر بھی فیس بک پر دے دی ہے۔ اللہ اسے عقل دے، جن دوستوں نے میرے لئے دعائیں کی ہیں ان کا بےحد شکریہ اور ان سے ایک درخواست یہ کہ وہ ابرار ندیم کیلئے بھی دعا کریں کہ اللہ اسے عقل سلیم سے نوازے۔