• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے کہا تھا ’’جس کسی نے ہندوستان کی تاریخ کا ایک صفحہ بھی پڑھا ہوگا وہ پختون خطے کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی سے گریز کرے گا‘‘۔ اس رائے کا اظہار انہوں نے 20جولائی 1904ء کو اُس وقت کیا جب وہ اپنے منصب کے اختتام کے قریب تھے۔ معروف مستشرق جیمز ڈبلیو سین اپنی کتابThe Pathan Border Landکا اختتام اگرچہ لارڈ کرزن کے مذکورہ تاریخی قول پر کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ اپنے نوٹ میں لکھتے ہیں ’’رومانوی تاریخ کے حامل پختونوں کی حیران کن توانائیاں اور صلاحیتیں تعلیم اور اقتصادی ترقی سے ’’اگر‘‘ شستہ و وسیع ہو جائیں‘‘ یعنی جدید تعلیم کے ساتھ اقتصادی ترقی، تو یہی اس خطے کی غیر یقینی کا علاج ہے‘‘۔ کتاب کا موضوع ڈیورنڈ لائن کے اطراف کے علاقے ہیں۔ راقم کو لارڈ کرزن کا یہ قول امریکہ طالبان مذاکرات کی ناکامی سے متعلق خبروں کے گرم تعاقب کے دوران یاد آیا۔ قبل ازیں کہا جا رہا تھا کہ اتفاق ہوگیا ہے اور صرف معاہدے پر دستخط ہونا باقی ہیں۔ اس سے قبل بھی متعدد ایسے ہی مواقع آئے جب تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ سب کچھ طے ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے ناچیز نے 15اکتوبر 2017ء کو اپنے کالم میں لکھا ’’آپ لاکھ سہ فریقی، پنج فریقی مصنوعی کا نفرنسیں، ملاقاتیں، دورے کر لیں۔ نتیجہ صفر ہی رہے گا، جو لوگ گاہے گاہے امریکہ بہادر کے دبائو یا دیگر وجوہ کی بنا پر ہونے والی نشست و برخاست کو پھوٹتے چشمے سے تعبیر کرتے ہوئے ’زم زم‘ لکھنا شروع کر دیتے ہیں، ایسے ماہرینِ افغان امور کے منہ میں گھی شکر، مگر ہنوز ’مرام‘ نادیدہ است‘ ‘گویا دو سال قبل بھی اسی طرح کا تاثر نمایاں تھا کہ امریکہ جنگ ہارنے کے بعد فرار ہوا ہی چاہتا ہے۔ خیر! یہاں کہنا یہ ہے کہ اگرچہ مذاکرات و معاہدے کے امکانات اب بھی معدوم نہیں لیکن افغان عوام پر جب جب ایسے معاہدے تھوپے گئے نتائج خوفناک ہی برآمد ہوئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد باہم دست و گریباں ’مجاہدین‘

کو ایک دستر خوان پر بٹھانے کیلئے میثاق پشاور کروایا گیا، بعد میں اس معاہدے کی جگہ میثاق اسلام آباد نے لے لی لیکن یہ معاہدہ بھی ثمر بار نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ ان سے خانہ کعبہ میں قرآن پر حلف لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود تختِ کابل کے حصول کیلئے گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی کے گروپوں میں معرکے کے دوران کابل پر ہونے والی بمباری سے 50ہزار شہری ہلاک ہوگئے، یاد رہے اُس وقت تک کابل اس طرح کے عظیم نقصان سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ اب بھی ایک سوچ یہ تھی کہ امریکہ ماضی کی طرح سقوطِ کابل کیلئے راستہ ہموار کر سکتا ہے۔ یہ سوچ اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ تمام تر غیر ملکی امداد کے باوجود افغان حکومت اس قابل نہیں ہو سکی کہ وہ اس طرح کے کسی منصوبے میں مزاحم ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی جب چاہے کسی بھی جگہ پر دھماکے کر بیٹھتا ہے۔ ایران اور شمالی کوریا کو اس سے بھی زیادہ چیلنج درپیش ہیں لیکن ایک تو عوامی اتحاد کی وجہ سے وہاں سبوتاژ مہم اور دہشت گردی کیلئے مداخلت لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے، دوسری بڑی وجہ وہ تعلیمی و اقتصادی ترقی ہے جسے افغانستان میں امن و خوشحالی کیلئے مذکورہ اقوال میں لارڈ کرزن اور جیمزڈبلیو سین ناگزیر قراد دے چکے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان کے جانے کے دو عشرے بعد بھی افغان قبائلی معاشرے میں رتی برابر تبدیلی نہیں آ سکی ہے اور تاریخ کے ہر دور میں ایسے معاشرے سے ہی زر خرید سستے داموں دستیاب ہوتے رہے ہیں۔ قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ جن مقاصد کیلئے امریکہ اس خطے میں آیا تھا، کیا وہ حاصل ہو گئے ہیں؟ اس کا مطلب مگر یہ پھر بھی نہیں کہ کوئی کوشش بارآور ثابت ہو ہی نہیں سکتی۔ جو بھی امن کیلئے کوششوں کا عَلم تھامے ہوئے ہیں، اُنہیں لڑنے والی قوتوں کے علاوہ بالخصوص اُس عوامی رائے کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا جو اس حوالے سے پائی جاتی ہے اور جیسا کہ روزنامہ جنگ کی خبر میں بتایا گیا ہے ’’کابل میں شہریوں نے کہا ہے کہ مذاکرات صرف افغانوں کے درمیان ہونا چاہئیں‘‘۔ بنا بریں افغان صرف پختون نہیں، وہ غیر پختون قومیتیں بھی ہیں جن کے علاقوں میں امن و خوشحالی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا معاہدہ جو افغان عوام کی اُمنگوں کے برعکس ہو، پائیدار نہیں ہو سکتا اور افغانستان میں پائیدار امن کے بغیر پاکستان سمیت پورے خطے میں غیر یقینی کے بادل چھائے رہیں گے۔

تازہ ترین