کہ سیاست چھوڑ دی میں نے
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یار میرے ساتھ سیاست نہ کرو کھیلنا ہے تو سیدھے سیدھے کھیلو یہی تاثر دماغ میں ایسا بیٹھا کہ معذرت کے ساتھ آج کے کھرے اور صادق امین، سیاستدانوں کو بھی دیکھتا ہوں تو بچپن کا کوئی روندی ساتھی یاد آ جاتا ہے کہ حالانکہ ایسا نہیں۔ ہمیں خواجہ آصف اس لحاظ سے بہت اچھے لگتے ہیں کہ وہ کتنی بھی اردو بولیں ذائقہ پنجابی کا آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں انہوں نے کہا اب تو کرپشن کا میٹر بند ہے۔ چور اچکے سب اندر ہیں اور کچھ ہم ادھر اسمبلی میں بے ضرر بیٹھے ہیں اب معیشت کیوں دیوالیے کی جانب رواں دواں ہے اب تو حکمرانوں کے کانوں سے بھی ڈالر نکلنے چاہئیں کیونکہ وہ نہایت پرہیز گار اور متقی ہیں، ویسے وہ بات کھری کرتے ہیں اور مزاح کے رنگ میں سنجیدہ بات کرنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ ہم نے عنوان ایسا ہمہ جہت رکھا ہے کہ اسے کسی بھی سیاق و سباق میں پیش کیا جا سکتا ہے یہ بھی سیاست ہے، ایک سیاست وہ بھی ہے جو فضل الرحمٰن کرتے ہیں، کہنا پڑتا ہے کہ تم سیاست کرو ہو کہ کرامات کرو ہو سیاست کا ایک انداز وزیر اعلیٰ نے بھی اپنا رکھا ہے، شہباز گل اونچا بول بول کر جو بلندی نہ پا سکے وہ بزدار نے چپ رہ کر پا لی، ایک نہایت ہی سینئر تجزیہ کار و اینکر نے اس کے جواب میں کہ کئی وزراء عمران خان کے ویژن کے مطابق کام نہیں کر رہے فرمایا کہ کیا خود عمران خان اپنے ویژن کے مطابق کام کر رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں اینکرز کو سیاستدانوں سے بڑھ کر سیاست آتی ہے، سیاستدان ان کی شاگردی کر سکتے ہیں، یہ درست ہے کہ سیاست کھیل ہے پیسے والوں کا مگر اسے کھیلنے کا ہنر جاننے والوں کے پاس پیسہ نہیں ہوتا، اگر اس ملک سے واقعتاً کرپشن ختم ہو جائے تو میدان سیاست میں چند زندہ دل چوہے ہی آنکھ مچولی کھیلتے نظر آئیں ہماری من حیث القوم یہ ’’ایکسپرٹیز‘‘ ہے کہ ہر جذبے احساس مذہب اور علم و ادب تک کو کاروبار میں ڈھال لیتے ہیں اور وہاں سے بھی دولت کھا جاتے ہیں جہاں سے محبت کمائی جاتی ہے ہم نے بین السطور بہت سی باتیں کر لی ہیں اب غور و فکر قارئین فرماتے ہیں کہ کہیں ہم نے سب کچھ غلط تو نہیں لکھ دیا بہرحال غلط ہی میں فائدہ پوشیدہ ہے۔
٭٭٭٭
تو ناگن میں سپیرن
رابی پیرزادہ کے گھر اژدھا ، سانپ اور مگر مچھ پالنے پر چالان، لائسنس کسی کو بھی جاری نہیں کیا جا سکتا، دو سال قید ہو سکتی ہے، ڈی جی وائلڈ لائف۔ حسن سانپوں، اژدہوں اور مگر مچھوں پر مر مٹے گا یہ عشق کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، ہمارا خیال ہے دنیا سے حسن پرستی رخصت ہو رہی ہے ورنہ رابی ناگن کے بجائے سپیرن کیوں بنتی، رابی پیرزادہ ایک مقبول گلوکارہ ہیں، اب وہ زمانے گئے کہ گلوکارائیں فقط گلوکار ہوا کرتی تھیں اب تو وہ حسینائیں بھی ہوتی ہیں، سننے والے انہیں سنتے کم دیکھتے زیادہ ہیں، ہماری رائے ہے کہ ڈی جی وائلڈ لائف رابی کو کسی چڑیا گھر میں منتقل کر دیں انہیں پابند سلاسل کرنے کی بات بھی نہ کریں، کہتے ہیں چور اور سانپ کا راستہ معلوم نہیں کیا جا سکتا، ہمیں تو سانپ پر بھی کچھ کچھ سیاستدان ہونے کا شک گزرتا ہے، رابی پیرزادہ پر غالب کا یہ شعر اپنے دونوں مصرعوں کے ساتھ فٹ بیٹھتا ہے
ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین و ہوش ہے
رابی کی گود میں اژدھا دیکھ کر ہمیں اقبال کی وہ نظم یاد آئی جس کا عنوان ہے ’’....کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ بہرحال اگر وہ خوفناک جانور پالنے کے بجائے بے ضرر انسانی بچے پال لیتیں، انہیں پڑھاتیں لکھاتیں اچھا کھانے پہننے کو دیتیں تو اجر بھی ملتا اور چالان بھی نہ ہوتا، اپنے شوق کے لئے کوئی بلی ہی پال لیتیں تو ہم نظم لکھتے ’’رابی کی گود میں بلی دیکھ کر‘‘ ۔
٭٭٭٭
رنگ رنگ تبدیلی کے رنگ
کسی نے کہا ہے پی ٹی آئی اندرونی اختلاف میں خود کفیل ہے، اسی طرح وہ تبدیلی میں بھی خود کفیل ہے، پارٹی سے باہر اسی لئے ملک میں کوئی اچھی تبدیلی نظر نہیں آتی، صوبہ پنجاب بھی تقریباً ایک عدد پاکستان ہی ہے، اس کا نظام شہباز شریف کے ہاتھ میں تھا اور اب وسیم اکرم ’’پلس‘‘ کے پاس ہے، جنہیں شاید معلوم نہیں کہ سسٹم میں وافر بجلی کے باوجود پنجاب اور بالخصوص لاہور میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، ان کے شاید یہ بھی علم میں نہیں کہ لاہور میں گلی گلی دکان اسکول کھل رہے ہیں جن کے پاس رجسٹریشن ہے اور نہ کوئی معیار، شاہ عالمی کے تاجر کوئی بلڈنگ کرائے پر لے کر خوب تشہیر کر کے ایک ایسا اسکول کھول لیتے ہیں کہ جیسے اس کا الحاق آکسفورڈ اور کیمبرج سے ہے، کہیں سے ایک میڈم ہاتھ کر لیتے ہیں، دو چار ٹیچر رکھ کر بھاری فیسیں بٹورتے اور اسٹاف کو 10ہزار 15ہزار کے درمیان تنخواہ دیتے ہیں، یہ رٹا سسٹم اسکول ہوتے ہیں، اسی طرح چوبارہ اکیڈمیاں تو بے حساب ہیں، تعلیم محض ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے، جیسے سینما ہال، میرج ہال بن گئے کاروبار بھی تعلیم میں ڈھل گئے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ ہربنس پورہ، سلامت پورہ میں کچرا جلانے کی بھٹیاں موجود ہیں، اور لاہور بھی کچرا کلچر میں کراچی بنتا جا رہا ہے، وہ یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ لاہور کے رہائشی علاقوں میں فیکٹریاں اور بازار کھلتے جا رہے ہیں، اور یہ منظر بھی ان سے اوجھل کہ لاہور کی نہر کے دونوں طرف کی آبادیوں میں انسان اور بھینسیں ایک پیج پر ہیں۔ خان صاحب نے بزدار صاحب کو ایک اسٹیبلائزر لگایا تھا مگر وہ بھی شاید خود کو ہی اسٹیبلائز کرتے کرتے فیوز ہو گیا۔ بہرصورت اس وقت پنجاب کا جو حال ہے اس پر حاکم پنجاب سے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں؎
سارا نظام چوپٹ ہے رشوت سفارش عام ہے
کام کی لے کچھ تیز کرو بڑا اندھیرا ہے
٭٭٭٭
چھیتی بوڑیں وے طبیبا!
....Oوزیراعظم نے مظفر آباد میں نہایت شاندار تقریر کی،
انہوں نے جنگ کے خطرے کو ٹالنے کے لئے ایک بار پھر اینٹ کے جواب میں پتھر کا محاورہ استعمال کیا، اور نوجوانوں سے کہا جب تک میں نہ کہوں سیز فائر لائن کی طرف نہیں جانا۔
....Oپنجاب میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ وزیر اعلیٰ کا ترجمان اور ایک مشیر فارغ کابینہ میں بھی ردوبدل کا فیصلہ۔ اب ہم اور کیا بولیں؎
تیری دو ٹکیاں دی تبدیلی
میرا لاکھوں کا ساون جائے
....O خدا کا شکر ہے کہ میڈیا حیات ہے ورنہ ہم تو ’’تھاں‘‘ مر جاتے۔
٭٭٭٭