سندھ دھرتی انوکھے تہوار اورمنفرد میلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں انفرادی مقام رکھتی ہے۔
چند روز پیشتر ،اس کے زیریں علاقے لاڑہ کے ضلع بدین کے دوسرے بڑے کلیدی شہر ٹنڈو غلام علی میں گدھوں کی عالمی منڈی اور ’’خرمیلہ‘‘کا روایتی جوش و خروش سے اہتمام کیا گیا۔
گدھوں کی سجنے والی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ، امسال بھی روایتی انداز میں ٹنڈو غلام علی میں مکمل تزک و احتشام سے لگائی گئی۔
ایک صدی سے زائد عرصے سے لگائی جانے والی گدھوں کی یہ منڈی اس مرتبہ بھی یوم عاشور کے تقدس کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے11ویں اور 12 ویں محرم الحرام کو ٹنڈو غلام علی، ماتلی کی مرکزی شاہ راہ پر میر بندہ علی خان تالپور کی پرانی جیننگ کاٹن فیکٹری کے 16 ایکڑ رقبے کے خالی میدان میں لگائی گئی۔
واضح رہے کے اس سے قبل ٹنڈو غلام علی میں گدھوں کی منڈی شہر کے مختلف علاقوں میں لگائی جاتی رہی ہے ۔
تاہم ملک کے مختلف علا قوں سے گدھوں ،کی منڈی میں آمد کا سلسلہ 7 محرم الحرام سے شروع ہوجاتا تھا اور یوم عاشور کو بھی خرید فروخت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، جس پر یوم عاشور کے تقدس کے تحت اس دن گدھوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا کر عاشور کے بعد کا ٹائم شیڈول طے کیا گیا۔
حسب سابق اس سال بھی گدھامنڈی کو ٹاوٗن کمیٹی ٹنڈو غلام علی کی زیر نگرانی چلانے کا فیصلہ کیا گیا اور ٹاوٗن کمیٹی کی جانب سے منڈی میں صفائی، روشنی، پینے کے صاف پانی کیلئے ٹینکر کی فراہمی کے خصوصی انتظامات کئے گئے۔
گدھوں کی ’’کیٹ واک‘‘ شرکاء کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں
گدھوں کی منڈی میں حسب سابق ملک کے چاروں صوبوںسے مختلف قسم کے گدھے کثیر تعداد میں لائے گئے۔
گدھا منڈ ی میں ملک کے دور دراز علاقوں سے آنے والے خریداروں کی بھی کثیر تعداد موجود تھی۔ اس سال گدھوں کی تجارت کے معاملے میں خرید و فروخت کے رجحان میں کافی مندی دکھائی دی۔
گدھوں کی اس منڈی میں مسن وڈی کے تاجر یامین نے اپنے کے گدھے کی فروخت کے لیے 12لاکھ بولی لگائی لیکن خریدار 11لاکھ روپے سے زیادہ دینے پر تیار نہیں ہوئے،تاہم یامین نے اپنا گدھ ایک لاکھ کم قمت پر فروخت کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا گدھا افزائش نسل میں منفرد صلاحیت رکھتا ہے اور اس نے اپنے گدھے کی اولاد کی مانند پرورش کی ہے۔
اس کی خوراک کا خاص خیال رکھا گیا اور اسے کھانے میں مقوی اشیا ء، جن میں دیسی گھی، مکھن، بادام، پستے، گندم ، باجرہ فراہم کیا گیا۔دوسرے نمبر پر ٹنڈو غلام علی کے خفتی کرڑ خان دایو کا گدھاتھا جوکہ سجھ بوجھ میں اپنی مثال آپ تھا ۔
مالک کی جانب سے اس گدھے کی قیمت 10 لاکھ روپے لگائی گئی۔ خریدار اس کی قیمت 8 لاکھ روپے سے زیادہ دینے پر راضی نہیں ہوئےجس پر خفتی کرڑ خان نے اپنا گدھا دولاکھ کم قیمت پر فروخت کرنے سے صاف انکار کردیا۔اس میلے اور منڈی میں سب سے پہلے لاسی نسل کا گدھا ایک لاکھ 40ہزار روپے میں فروخت ہوا۔
میلے میں شرکت کے لیے جہلم سے آنے والے محمد سفیان کا کہنا تھا کہ وہ عرصہ دراز سے ٹنڈو غلام علی میں سالانہ خر میلہ اور گدھوں کی منڈی میں شرکت کیلئے آتا ہے، اس منڈی کا ہم تما م خفتیوں کو پورا سال شدت سے انتظار رہتا ہے ، اس منڈی سے ہم کچھ خرید و فروخت کریں یا نہ مگر یہاں کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شکارپور کے دادن سجاول کے محمدہاشم اور دادو کے ابرار مگنیجو کا کہنا تھا کہ وہ اس میلے میں بچپن سے آ رہے ہیں اور یہ منڈی ہمارے رابطے کا اہم ذریعہ ہے۔ ننگر پار کر کے سلیمان ڈونگرو اور تاج محمد ڈاہری کا کہنا تھاکہ اس میلے اور منڈی کی گہما گہمی اپنی جگہ لیکن اس میں گدھوں کی شرکت کے لیے داخلہ فیس بہت زیادہ ہے۔
اگر اس میں کمی کر دی جائےاور گدھوں کی خرید و فروخت پرنافذ، وصولی ٹیکس میں کمی کی جائے اسے اور زیادہ پذیرائی حاصل ہوگی۔خفتی محمد ابراہیم کمہار کا کہنا تھا کہ اس سال خر میلے اور گدھا منڈی میں مندی کا رجحان زیادہ رہا ، اس کی وجہ ملک بھر میں گدھوں سے بار برداری والا کام اب چنگچی رکشہ سے لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے گدھوں کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔
پنگریو سے آنے والے تاجر سلیمان نے نمائندہ جنگ کے استفسار پر گدھوں کی قسمیں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں موجود گدھوں کی نسل میں ایرانی، لاسی، کھودا، ٹامڑی ، خچر، تھری، لاڑی، مکڑو شامل ہیں ان میں سب سے زیادہ مانگ لاڑی نسل کے گدھے کی ہے جس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے۔
سنجر چانگ سے آنے والے مشتاق لاشاری کا کہنا تھا کہ اس منڈی سے خریدار گدھے خرید کر ملک کے دور دراز کےعلاقوں میں لے جا کران کے ذریعہ روزگار کماتے ہیں۔
منڈی میں گدھوں کی ’’کیٹ واک‘‘ بھی توجہ کا مرکز ہوتی ہے اور میلے میں شرکت کرنے والے افراد اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ گدھا مالکان کی جانب سے اپنے گدھوں کے مختلف نام رکھتے ہیں، جن میں راکٹ، میزائل، کلاشنکوف، ہن کھن، بجلی، مادھوری، شعلہ، شبنم جیسے نام قابل ذکر ہیں۔
منڈی میں گدھوں کی پسندیدہ خوراک گھاس اور ان کی سجاوٹ اور بناؤ سنگھار کے سامان کی فروخت کے اسٹال بھی موجود ہوتے ہیں جب کہ اس میں شرکت کے لیے آنے والےشائقین کے طعام و قیام کیلئے ہوٹل، پان بیڑی کے کیبن ، اشیائے خورونوش جن میں پکوڑے ، سموسے ، سیخ بوٹی، کباب ، روٹی، چھولے، چاٹ،کے ٹھیلے بھی قطاروں میں لگے ہوتے ہیں۔
ٹاوٗن کمیٹی انتظامیہ کی جانب سے مختلف سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔گدھا منڈی میں تاجروں کے تحفظ کیلئے مقامی انتظامیہ کی جانب سے پولی سکے گشت اور چوکیاں بنائی گئی تھیں۔
یہاں ہر جانب دولہا ، دلہن کی مانند سجائے ہوئے گدھے خوب صورت نظارہ پیش کررہے تھے جب کہ ان کے ڈھینچوں ڈھینچوں کی طرز کے راگ شرکاء پر عجب سحر طار کررہے تھے۔ ان دو دنوں میں پورا ٹنڈو غلام علی شہر بھی گدھوں کی آوازوں اور شور شرابے سے گونجتا رہا۔