• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں کچرے کے انبار لگے ہیں اور دوڑ یہ ہے کہ کسی طرح اسے دور دراز مقام پر پھینک دیاجائے جبکہ جاپان میں شہرکی غلاظت شہریوں کوسہولتیں فراہم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

کراچی اور جاپان کے کچرے میں کیا فرق ہے ؟


یہ بھی پڑھیے: کچرا کراچی کا!

جاپان کےشہر کوبے میں نہ کچرا جلایا جاتا ہے اورنہ ہی زمین میں دبا کر مٹی کو آلودہ کیا جاتا ہے بلکہ شہر بھر کا سیوریج ’ گاشی ناداویسٹ واٹرٹریٹمنٹ پلانٹ‘ لایاجاتاہے، جہاں اسے انتہائی چھوٹےٹکڑوں میں تقسیم کرکے مختلف مراحل سےگزاراجاتاہے۔

یہ بھی پڑھیے: امریکا دنیا میں سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والا ملک بن گیا

کچرے میں موجود مادوں کونامیاتی اورغیرنامیاتی اجزامیں تقسیم کرنے کے لیے جراثیموں کی مددلی جاتی ہے۔

اس عمل کےدوران پیدا ہونیوالی گیسوں کو بائیوگیس ریفائننگ نظام سے گزار کر قدرتی گیس حاصل کرلی جاتی ہےجو شہر میں سپلائی کے لیے فراہم کردی جاتی ہے۔

پلانٹ کےساتھ ہی ایک بائیوگیس اسٹیشن بھی قائم کردیاگیاہےجہاں سی این جی سے چلنے والی گاڑیوں کو فیول فراہم کیا جاتاہے۔

1962 ء سے قائم یہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ اب شہر کو قدرتی گیس سپلائی کرنے کابھی اہم ذریعہ ہے۔

غلاظت کےٹھوس اجزا کو ایک اور پلانٹ سے گزار کر فاسفورس علیحدہ کر لی جاتی ہے۔

جس کے ذخیرے دنیا بھر میں تیزی سےکم ہورہے ہیں تاہم ری سائیکلنگ کےعمل نے اس اہم عنصر کی فراہمی بھی ممکن بنادی ہے۔

غلیظ پانی کی مکمل صفائی کر کے اسے بادام، انگور اور انار کے باغوں کوفراہم کردیاجاتا ہے جن سےانتہائی مہنگے مشروبات تیار کیے جاتے ہیں۔

جوکچرا بچتاہےاسےسڑکیں بنانےمیں استعمال کرلیاجاتاہے۔

کراچی میں کچرے سے کس قدر قیمتی اشیا نکالی جاسکتی ہیں اس بات کا اندازہ کوبےکے اس پلانٹ سے لگایا جاسکتا ہے جو سیوریج کوری سائیکل کر کے شہر کو سہولتیں بھی دے رہا ہے اور منافع بھی کما رہا ہے۔

تازہ ترین