• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کوّے کی چال کا مذاق اڑایا جاتا ہے، میں مانتا ہوں ہماری چال غیر متوازن ہے لیکن کیا کوئی متنفس مخلوق انسان کے ہاتھوں اپنے ہی بھائی پر توڑے جانے والے مظالم کا تماشا دیکھ کر بھی سیدھی اور ہموار چال چلنے کے قابل رہ سکتی ہے؟ دنیا میں انسانوں کی آمد سے پہلے ہم شاہانہ وقار کے ساتھ چلا کرتے تھے لیکن جب ہم نے اشرف المخلوقات کے ہاتھوں اپنے بھائی کے وحشیانہ قتل کا ہولناک منظر دیکھا تو دہشت و ہیبت سے ہماری چال ہی بگڑ گئی‘‘! یہ اُس کوے کا شکوہ ہے جسے نحوست کی علامت کہتے ہیں۔ یہ کوا ہمیں گزشتہ روز اس خبر سے یاد آیا جس میں بتایا گیا ہے کراچی کے علاقے کورنگی سے شاپنگ بیگ میں بند انسانی ہاتھ اور ٹانگ ملنے کے بعد جب ملزمان کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ رقم نہ دینے پر قتل کے بعد لاش کے 10ٹکڑے کرکے پھینک دئیے۔ ’’قصص الحیوان فی القرآن‘‘ جس کا ترجمہ غضنفر حسین بخاری نے کیا ہے، مصر کے ڈاکٹر بہجت کی تصنیف ہے، اس میں کوّے کی زبانی انسانی سرشت کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’میں کوّا ہوں‘‘ کے عنوان تلے کوّا اظہارِ فخر کرتے ہوئے کہتا ہے ’’جب قابیل اپنے بھائی ہابیل کو قتل کرکے اس کی لاش کندھے پر اٹھائے ٹھکانے لگانے میں ناکام رہا تو میں نے ہی باامر الٰہی اسے دفنانے کی ترکیب سکھائی تھی! دنیا والوں پر ہمارا سیاہ رنگ اتنا گراں گزرتا ہے کہ وہ اس سے بدشگونی لیتے ہیں لیکن جب خود انسان کا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو اس کے سامنے ہمارے پروں کی سیاہی بھی ماند پڑ جاتی ہے! انسانوں کا عقیدہ ہے کہ کوّے کی آواز منحوس ہوتی ہے۔ میں (کوّا) کہتا ہوں کہ بعض اوقات انسان خود کسی نامبارک منصوبہ بندی میں مصروف ہوتا ہے، جب کوّے کی آواز اس کے کانوں میں پڑ جاتی ہے تو وہ اس وقت اپنے کرتوت بھول جاتا ہے اور اس کے نتائج بد کو کوّے کی آواز کی نحوست قرار دیتا ہے۔ یہ بنی آدم کا پرانا حیلہ ہے اور اپنے جرم کو دوسروں کے سر تھوپ دینا اس کی قدیم عادت ہے۔ دراصل دنیا میں ایسی کوئی مخلوق موجود نہیں جو انسانوں کی طرح اپنی ذات کو فریب دیتی ہو! جب میں انسانی دنیا میں آیا تو بنی آدم کے تصرفات دیکھ کر میرے ہوش و حواس جواب دے گئے اور اس محرومی پر میں نے چیخ چیخ کر اپنی آواز بگاڑ لی‘‘۔ کوے کی داستان کو مزید سننے سے پہلے یہاں ایک لمحہ رک کر سوچتے ہیں کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں کتے کے کاٹے کے ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے 13انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، وہاں ایک سرکاری افسر سے 8 لگژری گاڑیوں کے ساتھ، ہیرے جواہرات، ڈالر، ریال، زیورات، سونے کے بٹن و کف لنکس، لاکرز، کئی پلاٹس و کراچی و لاہور کے بنگلوں کی دستاویزات برآمد ہوتی ہیں، گھر کا صرف باتھ روم ہی 2مرلے کا ہوتا ہے۔ تو اگر اس انسانی تصرف پر پھر بھی ہمارے اوسان بحال ہیں، تو پھر کیا ہم سے اچھا کوا نہ ہوا کہ انسانی تصرفات دیکھنے سے اُس کےہوش و حواس ایسے گئے کہ اُس نے چیخ چیخ کر اپنی آواز بگاڑ لی! کوا آگے کہتا ہے ’’جب ایک مادہ کو بھگانے پر ہم نے مجرم کوّے کو ٹھونگیں مار مار کر رجم کر دیا اور اُسے احترام سے دفنانے لگے تو ناخلف قابیل اپنے بھائی ہابیل کی لاش کندھے پر اُٹھائے ہمیں دیکھ رہا تھا اور یہ نہیں جانتا تھا کہ لاش کا کیا کرے۔ میں نے قابیل سے کہا کہ مت بھولو کہ اگر مشیتِ ایزدی کو لاش کی حرمت ملحوظ نہ ہوتی تو تم قیامت تک اپنے قبیح جرم کے اس بوجھ کو لئے لئے پھرتے‘‘۔ کوے کی کہانی ابھی جاری ہے، مگر یاد کیجئے 2013کی اُس رپورٹ کو، جس میں ہیومن رائٹس کمیشن نے بتایا تھا کہ 6ماہ میں کراچی میں 1726بے قصور انسان قتل کئے گئے۔ لاشوں کو بوریوں میں بند کیا جاتا تھا۔ کاش اولادِ آدم کے اس طرح قتال پر ہماری چال بدل جاتی کہ ہم بھی کوے کی طرح پھدکتے اور ایک ٹانگ پر ایسے اچک اچک کر چلتے جس طرح کوئی دیوانہ دہکتے ہوئے کوئلے پر چلتا ہے تو شاید ہم ایسی سفاکی سے باز آجاتے جیسے کراچی شرافی گوٹھ میں ہوئی کہ پیسوں کیلئے انسانی لاش کے 10ٹکڑے کرکے پھینک دئیے گئے۔ کوا بتاتا ہے کہ ’’جب قابیل نے مجھ سے تدفین کا طریقہ جان لیا تو پھر میں پرواز کر گیا۔ اس دوران میں نے قابیل کی ندامت بھری فریاد سنی، وہ کہہ رہا تھا (جیسا کہ سورہ مائدہ آیت 31میں ہے) افسوس میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش کی تدفین کر سکوں‘‘۔

تازہ ترین