بدھ کی صبح سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کی الیکشن کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست خارج کردی۔ یہ خبر نیوز ٹیلیویژن کے افق پر بجلی بن کر چمکی اس کے فوراً بعد تبصروں کی ایسی آندھی چلی کہ شام اور رات کے سارے ٹاک شوز اس کی زد میں آگئے۔ بدھ کی ہی صبح بھارتی شاعر اور فلمی نغمہ نگار گلزار نہ جانے کس کے کئے گئے فیصلے پر لاہور سے واہگہ کے راستے اپنے وطن چلے گئے جبکہ انہیں کراچی ادبی میلے میں شرکت کیلئے کراچی آنا تھا۔ دراصل اس میلے کے سب سے اہم مہمان ہی وہ تھے اور ان کے آنے کی خبر نے کراچی کے ادب نواز حلقوں میں ایک ہلچل پیدا کر دی تھی۔ یہ واقعہ بھی ایک خبر بنا۔ کہا یہ گیا کہ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے بھارتی ہائی کمیشن نے انہیں کراچی آنے سے روک دیا۔ خود گلزار نے بھارت سے منتظمین کو یہ خط لکھا کہ وہ ناسازئی طبع اور بے چینی کی وجہ سے لاہور سے واپس چلے آئے۔ انہوں نے معذرت بھی کی کہ ” مجھ سے ناراض نہ ہونا“۔ لیکن گلزار کے اس طرح چلے جانے کی خبر پر کوئی نمایاں تبصرے نہیں ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی تعلق بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ تعلقات سے بھی رہا ہو گا۔ چند لوگوں سے گفتگو ہوئی تو اس میں سازشی کھسر پھسر بھی شامل تھی کہ انہیں کس نے کیوں کراچی آنے سے روکا۔ بہرحال اگر یہ سوال اتنی بار اتنی شدت سے پوچھا گیا کہ طاہر القادری پاکستان کیوں آئے تو شاید یہ بات بھی آہستہ سے کہی جا سکتی تھی کہ گلزار کو پاکستان کا اپنا دورہ مختصر کر کے کیوں جانا پڑا۔
طاہر القادری اور گلزار کے اس حوالے کو میں اس بات کی بنیاد بنا رہا ہوں جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ یہ چوتھا سال ہے کہ کراچی کا ادبی میلہ اتنی شان وشوکت اور اہتمام سے منایا جا رہا ہے۔ اس اختتامی ہفتہ یہ درخشاں ادبی سنگت کئی ہزار افراد کے دل ودماغ کو روشن کر رہی ہے۔ انگریزی اردو اور عالمی ادب کے درجنوں ستارے یہاں جمع ہیں۔ کراچی کی ایک تصویر تو وہ ہے جسے پوری دنیا تشویش کا نظر سے دیکھتی ہے۔ بدامنی اور قتل وغارت گری کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے کہ شہری خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں ایک ایسے شہر میں ادبی میلے کا ایک روایت بن جانا واقعی حوصلہ افزاء ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اس نوعیت کی سرگرمی کی ہمارے معاشرے میں کیا اہمیت ہے۔ دوسرے لفظوں میں آخر گلزار اور ان جیسی دوسری شخصیات سے ہمارے رابطے کیوں ضروری ہیں۔ یعنی علم، فکر، ادب اور تخیل کی ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔ اب یہ دیکھئے کہ پاکستان ان دنوں جن مسائل سے دوچار ہے ان میں سیاستدانوں کا ایک خاص کردار ہے انتخابات سر پر کھڑے ہیں ایک نئی عوامی رائے سے چنی جانے والی حکومت کا انتظار ہے اور دعا ہے کہ آنے والے حکمران موجودہ حکمرانوں سے بہتر حکمرانی کے اہل ہوں گے۔ گویا ملک کی تقدیر ان سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے جو عوام کی حمایت کر سکتے ہیں اور ان کے اعتماد پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ منتخب اسمبلیاں ہی قانون بناتی ہیں اور سماجی تبدیلی کا رخ متعین کرتی ہیں۔ عام شہریوں کی زندگی بڑی حد تک اپنے حکمرانوں کی عقل ودانش اور دیانتداری اور بصیرت کی تابع ہوتی ہے۔
یہ سب صحیح ہے لیکن اگر کوئی طبقہ سیاستدانوں سے بھی زیادہ کسی معاشرے کی تشکیل پر اثرانداز ہوتا ہے تو وہ مفکروں، ادیبوں، شاعروں اور تخلیقی فنکاروں کا ہے پاکستان جس تہذیبی اور تعلیمی پسماندگی سے دوچار ہے اس کی شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پڑھنے، سوچنے، لکھنے اور مکالمہ کرنے کی روایت بہت کمزور ہے فنون لطیفہ سے ہمارا کوئی گہرا جذباتی رشتہ قائم نہیں ہو سکا ہے جو ترقی یافتہ ملک ہیں ان سے اس ضمن میں موازنہ ہمارے ہوش وحواس اڑا سکتا ہے۔ میں اسے اپنی زندگی کا ایک مشن سمجھتا ہوں کہ نوجوانوں میں مطالعہ کے شوق کو بیدار کیا جائے۔ میں ان سے یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر ناول نہیں پڑھو گے اچھی شاعری سے دوستی نہیں کرو گے تو پھر عشق کیسے کرو گے اور خود اپنے جذبات کو کیسے سمجھو گے اور یہ جو ویلنٹائن ڈے کے بچکانہ پیغامات ہیں کہ جن سے ہمارا کوئی تہذیبی تعلق بھی نہیں ان سے تو کام نہیں چلتا۔ یہ ادب ہی تو ہے جو ہمیں مہذب بناتا ہے۔ جو دنیا کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے جو ہمیں سوچنا اور خواب دیکھنا سکھاتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ بھی تو ہے کہ ہمارے رہنما ہمارے سیاستدان عام طور پر علم وادب سے ناواقف ہیں اور ان کے فیصلے اور ان کے خیالات سے کم علمی کی گواہی دیتے ہیں۔ ایک مثال میری نظر میں ہے کہ کیسے کتابیں کسی ملک یا معاشرے کو بنانے اور سنوارنے میں ایک کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکہ کی لائبریری آف کانگریس نے چند ماہ پہلے ان کتابوں کی نمائش منعقد کی جنہوں نے امریکی معاشرہ کی تشکیل کی۔ کل 88 کتابیں ماہرین نے منتخب کیں جن میں ناول بھی تھے اور تاریخ اور ثقافت کے موضوعات پر لکھی جانے والی تحریریں بھی تھیں ان میں بچوں کی کہانیوں کی ایک کتاب بھی شامل تھی اور کھانا پکانے کی ترکیبوں کی بھی۔ سب سے اہم بات یہاں یہ سمجھنے کی ہے کہ یہ وہ کتابیں تھیں جو بے شمار امریکیوں نے پڑھیں اور ان کا اثر قبول کیا۔
کراچی کے ادبی میلے کے بارے میں گفتگو بعد میں ہو سکتی ہے۔ میں نے بدھ کے دن کے دو واقعات سے اس کالم کا آغاز کیا۔ بدھ کو ہی فیض کی سالگرہ بھی تھی۔ 2011ء میں فیض کی صد سالہ تقریبات منائی گئیں۔ اتفاق سے یہ مجاز کی بھی صد سالہ تقریبات کا سال تھا اور بھارت کی حکومت نے مجاز کی تصویر کے ساتھ ڈاک کا ایک ٹکٹ جاری کیا جس پر یہ شعر اردو میں تحریر تھا
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجاز
ڈرتے نہیں سیاست اہل جہاں سے ہم
اور آخر میں پھر گلزار کا ذکر، کہ انہوں نے امن کی آشا کا ترانہ لکھا وہ جہلم کے گاؤں دینا میں پیدا ہوئے تھے اور لاہور سے واپسی سے پہلے انہوں نے دینا کا دورہ بھی کیا جو یقیناً ایک جھنجھوڑ دینے والا جذباتی تجربہ ہو گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کیسے لوگوں کے ملنے اور آنے جانے کے راستے میں ایک رکاوٹ بن گئی ہے اس کی تڑپ کا ایک اظہار ان کے امن کی آشا کے نغمے میں موجود ہے میں اس کا پہلا اور آخری شعر آپ کو سناتا ہو
دکھائی دیتے ہیں دور تک اب بھی سائے کوئی
مگر بلانے سے وقت لوٹے نہ آئے کوئی
نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
یہ سُر بلاتے ہیں جب تم ادھر نہیں آتے
اور آخر میں ان کی ایک نظم جو کچھ عرصے پہلے انہوں نے لکھی جب مہدی حسن زندہ تھے:
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں
بند آنکھوں سے روز میں
سرحد پار چلا جاتا ہوں
ملنے مہدی حسن سے
سنتا ہوں ان کی آواز کو چوٹ لگی ہے
اور غزل خاموش ہے سامنے بیٹھی ہوئی
کانپ رہے ہیں ہونٹ غزل کے
پھر بھی ان آنکھوں کا لہجہ بدلا نہیں
جب کہتے ہیں
سوکھ گئے ہیں پھول کتابوں میں
یار فراز بھی بچھڑگئے ہیں
شاید ملیں وہ خوابوں میں
بند آنکھوں سے اکثر سرحد پار
چلا جاتا ہوں میں
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
سپنوں کی سرحد کوئی نہیں
دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ سرحد پار تو آگئے لیکن کراچی کے ادبی میلے میں شریک نہ ہو سکے۔