• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم ’ڈارلنگ‘ کی ہیروئن خواجہ سرا کی دلخراش کہانی


‏لاہور کی بہادر اور پاکستان کی قابل فخرخواجہ سرا علینہ کی شارٹ فلم ڈارلنگ ’وینس فلم فیسٹول‘ میں ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

علینہ کی شارٹ فلم ’ڈارلننگ‘ پہلی پاکستانی فلم ہے جو4 بڑے فلمی فیسٹول یعنی کانز ، برلن اور وینس میں پیش کی گئی ۔اس فلم کو ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی پیش کیا گیا۔

علینہ اس معاشرے کا ایسا انسان ہے جسے اس کے گھر والوں نے بھی مسترد کر دیا تھا لیکن انہوں نے اسی معاشرے میں خود کو منواکر ثابت کر دیا کہ جنس اہم نہیں ہوتی، سوچ اہم ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی فلم نے ’وینس فلم فیسٹول‘ میں ایوارڈ جیت لیا

حال ہی میں علینہ نے ایک ویب شو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا بھی مختلف صلاحیتیں رکھتے ہیں مگر انہیں مواقع نہیں ملتے۔

معاشرے میں ہمیں قبول نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ہماری صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور ہم سڑکوں پر بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی فلم نے ’ٹورنٹو فلم فیسٹول‘ میں جگہ بنالی

علینہ کا کہنا تھا کہ عجیب عجیب سی باتیں سن کر بہت برا لگتا ہے۔ لوگوں کے اس رویے کو دیکھ کر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ ہم اپنے طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں لوگوں کو کیا مسئلہ ہے؟ ہم جب کسی دوسرے کی زندگی میں دلچسپی نہیں لیتے تو ہم سے ہر جگہ کیوں ناروا سلوک کیا جاتا ہے؟

علینہ نے اپنے انٹرویو میں ایک سوال یہ بھی اٹھایا کہ اُن کی برادری کے لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل کو کوئی سزا نہیں ملتی ۔انہوں نے اپنی دوست کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کی دوست ’ہنی‘ کو سات گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جس کے قاتل کو اب تک کوئی سزا نہیں ہوئی۔

علینہ نے اپنی ابتدائی زندگی کی کہانی بتاتےہوئے کہا کہ انہیں ڈانس کرنے کا بہت شوق تھا، اسکول کے بعد گھر والوں سے چھپ کر وہ ڈانس اکیڈمی جایا کرتی تھیں ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ڈانس اکیڈمی سے واپس گھر آتیں تو اُن کا بھائی دروازہ نہیں کھولتا تھا اور وہ ساری رات دروازے کے باہر ہی گزارتی تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب اُن کی فلم کو ایوارڈ ملا تو انہوں نے اپنی والدہ کو فون کر کے بتایا تو وہ بہت خوش ہوئیں ۔

علینہ کا کہنا تھا کہ وہ چار سال قبل اپنے گھر کو چھوڑ کر چلی گئیں تھیں لیکن اپنے بہن بھائیوں سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہن بھائیوں سے اُن کی زیادہ نہیں بنتی۔

علینہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے مردوں کے بھیس میں ایک فیکٹری میں نوکری کی۔ لیکن وہاں بھی انہیں طنز و طعنے سننے پڑے ۔

علینہ کی زندگی کی سچی داستان نے انٹرنیٹ پر لوگوں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کروالی۔

علینہ کے اس انٹرویو کی ویڈیو کو 10 گھنٹوں میں 1 ہزار سے زائد بار شیئر کیا گیا۔

علینہ کا یہ انٹرویو پاکستانی معاشرے میں خواجہ سرا کے طور پر پرورش پانے والوں کی ترجمانی کرتا ہے۔

علینہ کی زندگی کی داستان میں  افسردگی، اضطراب، تناؤ  کی اصل وجہ معاشرہ ہی ہے۔

اس انٹرویو سے لوگوں کو یہ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں نرم دل ہمدرد اور احساس کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے۔ معاشرے کو متوازن ماحول دینا ہے تو ہر نسل، ذات پات، مذہب کے انسان کو عزت دینی چاہئے ۔

تازہ ترین