• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’اہلیہ اور بچے میرے زیر کفالت نہیں‘، جسٹس فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ وہ اہل خانہ کی ملکیتی جائیدادوں کی منی ٹریل دینے کے پابند نہیں کیونکہ اہلیہ اوربچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔

صدارتی ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا جواب الجواب جمع کرادیاجس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں اہلیہ اور بچوں کی زیرملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ  الزام لگا کر ان کی شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: جسٹس فائز عیسیٰ نے منیر اے ملک سے مدد مانگ لی

جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق کراچی میں 1600 مربع گز کا گھرہے جو پچھلے 10 سال سے خالی ہے، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ اور جج سپریم کورٹ اسلام آباد میں رہائش پذیر رہا ہوں، لندن یا بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور نا ہی اہلیہ کی دوہری شہریت ہے۔

انہوں نے اپنے جواب میں یہ بھی کہا کہ پہلی جائیداد 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈ پاکستانی 2 کروڑ 60 لاکھ روپے میں خریدی، دیگر 2 جائیدادیں 2013 میں بالترتیب 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ اور 2 لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ میں خریدیں، تمام جائیدادوں کی مالیت مل کر بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایک کنال کی قیمت سے کم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں اعتراض اُٹھایا کہ کونسل کا جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرانا درست نہیں، یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دیتا ہے نا کہ نجی پریکٹس کرے۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا کہ برطانیہ میں تین جائیدادوں کےاصل مالک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں اور بچے ان کے بے نامی دار ہیں۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کے حوالے سےاٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جائیداد خریدنے کے ذرائع بتانے سے گریز کر رہے ہیں‘جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الزامات محض مفروضوں پر مبنی ہیں، ان کی سپریم جوڈیشل کونسل کیخلاف درخواست قابل سماعت نہیں جبکہ بطور اٹارنی جنرل سپریم جوڈیشل کونسل کی معاونت کرنا آئینی ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین