• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج مسلمانانِ ہند کے عظیم محسن اور درویش کے پیرو مرشد سر سید کا 202واں یوم ولادت ہے۔ اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والے پاک و ہند کے باسی ہر سال 17اکتوبر کو ’’یومِ سرسید‘‘ مناتے ہیں اور انسانیت نواز شخصیت کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے نئی نسلوں کے لئے ان کے افکار سے روشنی لیتے ہیں۔ سرسید کی تعلیمات ہمارا درخشاں ماضی ہی نہیں، ہمارے حال اور مستقبل کی امید بھی ہیں۔ سرسید کو مہاتما گاندھی کے الفاظ میں ’’پرافٹ آف ایجوکیشن‘‘ یعنی پیامبرِ تعلیم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسی ہمہ جہتی شخصیت ہیں جنہوں نے محض اپنے فلسفیانہ و عقلی استدلال، افکار و نظریات سے روشنیاں ہی نہیں بکھیری ہیں بلکہ جو کہا یا لکھا اُسے بالفعل عامتہ الناس میں گراس روٹ لیول تک جاری و ساری کرنے کے لئے ٹھوس عملی کاوشیں بھی کیں، اسی لئے اُنہیں ایک عظیم مصلح کا مقام حاصل ہوا۔ اس سے بڑھ کر اس امر کا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے زندگی بھر اُن کی مخالفت میں مورچے بنائے رکھے بالآخر انہیں بھی یہ اعترافِ عظمت کرنا پڑا کہ ’’ہماری باتیں ہی رہیں سید کام کرتا تھا‘‘۔

سرسید کی زندگی اور جد وجہد پر اُن کی وفات کے فوری بعد اُن کے قریب ترین ساتھی مولانا الطاف حسین حالی نے جو امر کہانی لکھی اُس کا نام ہے ’’حیاتِ جاوید‘‘، جس کی نسبت سے پروفیسر ڈاکٹر علی محمد خان رقمطراز ہیں کہ ’’حیاتِ جاوید‘‘ سے پہلے مولانا حالی کی دو سوانح عمریاں ’’حیاتِ سعدی‘‘ اور ’’یاد گارِ غالب‘‘ قبول عام کا درجہ حاصل کر چکی تھیں۔ ان دونوں سوانح عمریوں کے حوالے سے مولانا حالی کو سوانح نگار کی حیثیت سے معتبر و مستند سمجھا جانے لگا تھا۔ دوسری طرف سر سید جو قوم کی ڈوبتی ابھرتی کشتی کے ناخدا تھے اور اپنی تدابیر سے اس ڈانواں ڈول کشتی کو ساحل سلامتی تک پہنچانے کی کوشش کے دوران رخصت ہو کر خدا کے حضور جا چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سر سید کے فکرو عمل سے متاثر سر کردہ لوگوں کے دلوں میں قومی ہمدردی کے جذبات موجزن تھے اور وہ اپنی قوم کو سر بلند دیکھنے کے متمنی تھے، ان کے دلوں میں یہ خیال جا گزین ہو چکا تھا کہ سرسید کی کاوشوں کو سراہا جائے اور ان کی زندگی کے تمام گوشوں کو اجاگر کرکے قوم کے سامنے اس طرح پیش کیا جائے کہ قوم ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرے تاکہ اُسے نشانِ منزل ملے۔

قوم کی خوش قسمتی تھی کہ مولانا حالی نے سرسید کی سوانح عمری لکھنے کا کٹھن بیڑا اٹھایا اور تین سال کی شبانہ روز محنت کے بعد قوم کی خدمت میں ’’حیاتِ جاوید‘‘ پیش کر دی۔ سرسید کی زندگی جہاں کچھ لوگوں کے لئے مشعلِ راہ تھی وہیں اُن کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں اور اُن کے ہر کام کی مخالفت کرنے والوں کی بھی کمی نہ تھی۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ جن لوگوں کا سرسید کے مکتب فکر سے تعلق تھا یہ لوگ انہیں بھی نہیں بخشتے تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق جنہوں نے سر سید اور ان کے رفقا کو قریب سے دیکھا تھا، مولانا حالی کے احوال میں لکھتے ہیں ’’سرسید تو خیر اُس زمانے میں موردِ لعن و طعن تھے ہی اور ہر کس و ناکس ان کے منہ کو آتا تھا لیکن ان کے بعد جس پر سب سے زیادہ اعتراضات کی بوچھاڑ پڑی وہ مولانا حالی تھے۔

خود مولانا حالی حیاتِ جاوید کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’ہم کو اس کتاب میں اس شخص کا حال لکھنا ہے جس نے چالیس برس تک تعصب اور جہالت کا مقابلہ کیا، تقلید کی جڑ کاٹی، بڑے بڑے علماء مفسرین کو لتاڑا، مجتہدیں سے اختلاف کیا، قوم کے پکے پھوڑوں کو چھیڑا، ان کو کڑوی دوائیں پلائیں، جن کو مذہب کے لحاظ سے ایک گروہ نے صدیق کہا تو دوسرے نے زندیق، جس کو پالٹیکس کے لحاظ سے کسی نے ٹائم سرور سمجھا اور کسی نے نہایت راستباز لبرل۔ ایسے شخص کی حیات چپ چاپ کیونکر لکھی جا سکتی ہے ضرورت ہے کہ اس کا سونا کسوٹی پر پرکھا جائے، اس کا کھرا پن ٹھوک بجا کر دیکھا جائے، وہ ہم میں پہلے شخص تھے جنہوں نے مذہبی لٹریچر میں نکتہ چینی کی بنیاد ڈالی۔ اگرچہ سرسید کے معصوم ہونے کا نہ ہم کو دعویٰ ہے اور نہ اس کے ثابت کرنے کا ہم ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس بات کا ہم کو خود بھی یقین ہے اور چاہتے ہیں کہ اوروں کو بھی یقین دلائیں کہ سرسید کا کوئی کام سچائی سے خالی نہ تھا‘‘۔

درویش کی نظر میں سر سید کی تمامتر فکری و عملی خدمات اپنی جگہ، ان کا یہی کارنامہ کچھ کم نہیں کہ انہوں نے ہمیں شخصیات پرستی کے چھوٹے پن سے اوپر اٹھاتے ہوئے محبوب ترین شخصیات کی زندگیوں اور کارناموں کا تنقیدی جائزہ لینے کا حوصلہ دیا۔ روایات کا اسیر بنانے کے بجائے عقل و خرد کو استعمال میں لانے کی ترغیب دی۔ مسلم مفکرین میں وہ اولین شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت نہ صرف تفسیر القرآن لکھی بلکہ تبئین الکلام کے تحت بائبل کی شرح بھی تحریر فرمائی۔سرسید کے افکار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور یہی اصول انہوں نے ہمیں سکھلایا ہے بلاشبہ انہوں نے مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے سے روکا بلکہ تعلیمی حالت بدلنے تک سیاست بازی سے ہی منع کر دیا۔ انہوں نے اگر بچیوں سے پہلے بچوں کو انگریزی پڑھانے پر زور دیا یا زمینداروں کے بچوں کو ترجیح دی تو یہ اُن کی عملیت پسندی تھی جس پر شدید ترین تنقید کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہئے۔ انہیں دو قومی نظریے کا پہلا معمار خیال کرتے ہوئے یہاں گرینڈ فادر آف پاکستان قرار دیا جاتا ہے۔ سرسید لبرل تھاٹ اور فکر جدید کے قائد اور خرد مندوں کے امام ہیں یہ آفتابِ عظمت سائنٹیفک اپروچ کے حاملین کو تا ابد روشنی کی کرنوں سے بہرہ ورکر تا رہے گا۔

تازہ ترین