• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نیشنل بریسٹ کینسر فاؤنڈیشن‘‘ کے زیرِ اہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں اکتوبر کا پورا مہینہ ’’بریسٹ کینسر آگہی‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے،تاکہ ہر خطّے سے تعلق رکھنے والی خواتین تک اس مرض سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کی جاسکیں ۔ اسی مناسبت سے پاکستان کی معروف جنرل سرجن، بریسٹ کینسر اسپیشلسٹ، ڈاکٹر روفینہ سومرو کا ایک تفصیلی مضمون سوالاً جواباً شایع کیا جارہا ہے، تاکہ مرض سے متعلق آگہی عام ہو اور قارئین، خصوصاً خواتین ان اہم معلومات کی روشنی میں مرض کے آغاز، وجوہ، ابتدائی علامات اور علاج وغیرہ سے متعلق تفصیلاً جان سکیں۔

س:بریسٹ کینسر کے محرّکات اور عوامل کیا ہوسکتے ہیں؟

ج:بریسٹ کینسر کے عوامل دو گروپس میں منقسم ہیں۔ ایک گروپ میں ایسے محرّکات شامل ہیں، جو غیر اختیاری ہوتے ہیں۔ جیسے خاتون ہوناخود ایک بڑارسک فیکٹر ہے۔ عُمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بریسٹ کینسر کے خطرات بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں،لیکن بڑھتی عُمر روکنا کسی کے اختیار میں نہیں۔ اسی طرح فیملی میں والدہ، بہن، نانی یا دادی وغیرہ کو چھاتی یا بیضہ دانی کا سرطان ہونا،مخصوص جینز "BRCA" میں گڑبڑ، ماہ واری کم عُمری میں شروع ہوکر زائد عُمر تک جاری رہنا اور بانجھ پَن وغیرہ بھی ایسے عوامل ہیں، جن پر عورت کا کوئی اختیار نہیں ۔ 

دوسرے گروپ میں وہ محرّکات شامل ہیں، جن پر قابو پانااختیار میں ہے۔مثال کے طور پربچّے کو اپنا دودھ پلانا ماں کے اختیار میںہے ۔ اگروہ اپنا دودھ نہ پلائے، تو بریسٹ کینسر لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جب کہ دودھ پلانے کی صُورت میں بریسٹ کینسر سے تحفّظ فراہم ہوگا۔

اسی طرح موٹاپے پر کنٹرول، تمباکو اور الکوحل سے اجتناب، ہارمون ری پلیسیمنٹ تھراپی، مانع حمل ادویہ، مرغّن، فروزن غذائوں کے استعمال، ماحولیاتی آلودگی، غیر معیاری، ناقص، ملاوٹ والی غذاؤں سے احتیاط برت کر بھی مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔نیز، ورزش نہ کرنااور تاخیر سے شادی ہونا بھی مرض لاحق ہونے کے اسباب ہو سکتے ہیں۔

س:پاکستان سمیت دُنیا بَھر میں اس مرض کے پھیلائو کی شرح کیا ہے اور پاکستان کا نمبر، مرض اور مریضوں کے اعتبار سے کون سا ہے؟

ج: صرف ترقّی پذیر ہی نہیں، ترقّی یافتہ مُمالک میں بھی بریسٹ کینسر کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تاہم، ایشیائی مُمالک میں پاکستان سرِفہرست ہے کہ یہاں ہر8خواتین میں سے ایک کو بریسٹ کینسر کا رسک ہے،جب کہ یہ مرض 40سال سے کم عُمر خواتین میں بھی رپورٹ ہورہا ہے۔واضح رہے کہ مغربی مُمالک میں یہ مرض50سے60سال،جب کہ پاکستان میں40سے 50 برس کی عُمر میں تشخیص ہورہا ہے۔

س: پاکستانی خواتین میں 40سال یا اس سے کم عُمر میں بریسٹ کینسر لاحق ہونے کی کیا وجوہ ہیں؟

ج: ایک تو مغربی مُمالک کی نسبت ہمارے یہاں اوسط عُمراور میموگرام ٹیسٹ کروانے کا رجحان کم پایا جاتاہے۔ دوسری وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ پھر تمباکو نوشی بھی بہت بڑھ گئی ہے، حالاں کہ مغربی مُمالک میں بھی اس کی شرح بُلند ہے، مگر وہاں خاص طور پر پیسیو اسموکنگ کے حوالے سے تشکیل دیئے جانے والے قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔ 

نیز، ایک وجہ فارمی مرغیوں کی جلد نشوونما اور بھینسوں سے زیادہ سے زیادہ دودھ حاصل کرنے کے لیے مخصوص ادویہ یا انجیکشنزکا استعمال بھی ہے کہ ان ادویہ اور انجیکشنز کے مضرّات میں بریسٹ کینسر بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پینے کے صاف پانی کی لائنوں میں سیوریج کے پانی کی آمیزش اور کزن میرجز وغیرہ بھی مرض کی وجوہ میں شامل ہیں۔

س: ابتدائی علامات کیا ہوتی ہیں، جن کی بدولت تشخیص ممکن ہوسکے؟

ج: تقریباً80سے90 فی صد کیسز میں ابتدا میں گلٹی ظاہر ہوتی ہے،جس کے حجم میں اضافے کے ساتھ جو دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں، اُن میں بریسٹ کی ساخت میں تبدیلی، درد، نِپل کا اندر دھنس جانا، خلیات سے چپک جانا، کھال جکڑنا یعنی کھال میں نارنگی کے چھلکے کی طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ بن جانا، بریسٹ کے حجم میں فرق، نِپل پر زخم بننا، خون یا رطوبت کا اخراج، بغل میں غدود محسوس ہونا اور سوجن وغیرہ شامل ہیں۔

س:فوری طور پر مریضہ کس سے رجوع کرے؟

ج: اگر فوری طور پر کسی جنرل فزیشن سے بھی رابطہ کر لیا جائے، تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ حتمی تشخیص کے بعد علاج تو بہرحال بریسٹ کینسر کی اسپیشلسٹ ٹیم ہی نے کرنا ہے، لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ جنرل فزیشن کو بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات کا علم ہو۔

س: مرض کی تشخیص کا سب سے موثر طریقۂ کار کیا ہے؟علاج کی کام یابی کی شرح کتنی ہے؟

ج:اگر معالج تجربہ کار ہے، تو عمومی معائنے کے ذریعے ہی 80سے 85فی صد درست تشخیص ہو جاتی ہے۔ تاہم، حتمی تشخیص کے لیے بائیوآپسی ناگزیر ہے۔مگر دیکھا گیا ہے کہ عموماً لوگ معاشرے میں رائج غلط تصوّرات کے سبب بائیوآپسی کا سُن کر ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں، تو بائیوآپسی قطعاً مضر نہیں، بلکہ اس کے ذریعے جہاں بریسٹ کینسر کی نوعیت کا پتا چلتا ہے، وہیں اس کی رپورٹ کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کیا جاتا ہے کہ کون سا طریقۂ علاج مؤثر رہے گا۔

رہی بات علاج میں کام یابی کی، تو یہ کئی عوامل پر منحصر ہے۔ جیسے اگر مرض ابتدائی مرحلے ہی میں تشخیص ہو جائے، تو کام یابی کی شرح بھی خاصی بڑھ جائے گی، مگر اس کے بعد کے تینوں مدارج میں یہ شرح بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ بریسٹ کینسر کی اقسام بھی علاج کی کام یابی میں اہم تصوّر کی جاتی ہیں۔اگر بریسٹ کینسر کی قسم ایگریسیو ہو(اس میں ای آر، پی آر اور "Her2"جین نیگیٹو ہوتا ہے)،تو علاج میں کام یابی کی شرح کم ہوجاتی ہے۔

پھر سرطان، بریسٹ کے علاوہ کہاں کہاں تک پھیل چُکا ہے،علاج کے ضمن میں یہ بات بھی بےحد اہمیت کی حامل ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ اگر معالج نے پانچ سال تک کے لیے کوئی دوا تجویز کی ہو، تو عموماً مریضہ خواتین سال، دوسال بعد دوا کا استعمال ترک کر دیتی ہیں، تو ایسے روّیے بھی کام یابی کی شرح کم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

س:میموگرام ٹیسٹ کن خواتین کو اور کس عُمر میں کروانا چاہیے؟

ج:میموگرام ٹیسٹ عام طور پر 35سے 40سال کی عُمر میں کروانا چاہیے کہ اس کے ذریعے ہاتھ سے محسوس کی جانے والی گلٹی کی بھی تقریباً دو برس قبل تشخیص ہوجاتی ہے۔البتہ35سال سے کم عُمر اور حاملہ خواتین میمو گرام نہ کروائیں،تو بہتر ہے۔

س:انکو ٹائپ ڈی ایکس ٹیسٹ (Oncotype DX Test)کیا ہے، یہ ٹیسٹ کیوں کروایا جاتا ہے، رزلٹ کتنے فی صد درست ہوتے ہیں اور اخراجات وغیرہ کیا ہیں؟

ج:دُنیا بَھر میں اس ٹیسٹ کی سہولت صرف امریکا کے شہر،کیلی فورنیا میں میسّرہے۔ انکو ٹائپ ڈی ایکس صرفمخصوص مریضوں کا کیا جاتا ہے،جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ان کے لیےکیموتھراپی مفید ثابت ہوگی یا پھرنہیں۔ اگر اس ٹیسٹ کا اسکور 11 سے کم ہو، تو کیموتھراپی نہیں کی جاتی، کیوں کہ ان میں مرض دوبارہ لوٹ آنے کے چانسز نہیں پائےجاتے ،مگر 25سے زیادہ اسکور میں کیموتھراپی ناگزیر ہوجاتی ہے۔

چوں کہ بعض کیسز میں کیمو تھراپی ویسے ہی لازمی ہوتی ہے، تو اس ٹیسٹ کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ یوں بھی ٹیسٹ کے اخراجات4ہزار ڈالرز (پاکستانی چھے لاکھ روپے سے زائد)تک ہیں۔

س:ایک بار علاج کے بعد کیا مریضہ کو زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے؟

ج: جی ہاں،کیوں کہ اگر ایک طرف سے کینسر کا علاج ہو چُکا ہو، تو دوسری طرف کے متاثر ہونے کے8 سے10 فی صد امکانات بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا علاج کے بعد اپنے معالج کے رابطے میں لازماً رہا جائے اور اس کی ہدایات پرعمل بھی ضروری ہے۔

س:اس وقت علاج کے کون کون سے جدید طریقے رائج ہیں،سب سے مستند طریقۂ علاج کون سا ہے؟نیز،کس مرحلے پرسرجری کی ضرورت پیش آتی ہے اور کب سرجری ممکن نہیں رہتی؟

ج: ماضی کی نسبت اب علاج کے جدید سے جدید طریقے متعارف ہو رہے ہیں۔ایک دَور تھا،جب مرض کے ابتدائی مرحلے ہی میں بریسٹ اور بغل کے غدود کی مکمل سرجری کردی جاتی تھی، مگر اب سرجری کم سے کم حصّے تک محدود ہوگئی ہے اور اگر بغل کے غدود متاثر نہیں ہوئے ، تو اس کی بھی غیر ضروری سرجری نہیں کی جاتی۔ پھر پلاسٹک سرجری کے ذریعے بریسٹ کی ساخت برقرار رکھنا بھی سہل ہوچُکا ہے۔ اسی طرح کیموتھراپی کے لیے نہ صرف جدید ادویہ متعارف ہوچُکی ہیں، بلکہ ان کے ضمنی اثرات سےتحفّظ کے لیے بھی کئی ادویہ دستیاب ہیں۔ 

غرض کہ بریسٹ کینسر کے علاج کے ضمن میں سرجری، کیموتھراپی، جین ٹارگٹ تھراپی اورریڈی ایشن تھراپی وغیرہ میں گزرتےوقت کے ساتھ خاصی جدّت آتی جارہی ہے۔رہی بات سرجری کی،تواس کی ضرورت ہر مریضہ کو پیش آتی ہے۔بعض اوقات مرض کی نوعیت دیکھتے ہوئے پہلے سرجری کر دی جاتی ہے، تو بعض کیسز میں کیموتھراپی کے بعد کی جاتی ہے۔

س:غیر شادی شدہ لڑکیوں میں بھی مرض تشخیص ہورہا ہے، اُن کے علاج میں کیا احتیاط برتی جاتی ہے؟

ج:کچھ خاص احتیاط تو نہیں برتی جاسکتی کہ کوئی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ علاج کے مدارج، طریقے تو وہی رہیں گے۔ ہاں، اگر لڑکیوں کی شادیاں مناسب عُمر میں کردی جائیں، تو مرض ہونے کا امکان کم کیاجاسکتا ہے۔

س:کیاپاکستان میں ہر سطح تک علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہیں؟

ج:پاکستان میں علاج کی جدید سے جدید سہولتیں دستیاب ہیں، مگر صرف بڑے شہروں کی حد تک،البتہ آبادی کے اعتبار سے جدید آلات کی تعدادخاصی کم ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ریڈی ایشن تھراپی کے لیے مریضوں کو اپنی باری کا چھے چھے ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پھر تربیت یافتہ سرجنز، اونکولوجسٹس اور ریڈیالوجسٹس وغیرہ کی تعدادبھی خاصی کم ہے۔

س: ایک بار سرجری کے بعد بھی مرض لوٹ آنے کے خطرات رہتے ہیں؟تو کیادوبارہ علاج بھی اُسی قدر مشکل ہوتا ہے؟

ج: ایسا ہی ہے ،کیوں کہ بعض ادویہ ایسی ہیں،جو زندگی میں صرف ایک ہی باراستعمال کی جاسکتی ہیں، تو ایسی صُورت میں علاج چیلنج بن جاتا ہے۔

س: کیامینو پاز کے بعد ،مرض کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے؟

ج: ہرگز نہیں۔میوپازویسے کئی طبّی مسائل کی جڑ ضرورہے، مگر یہ عمل بریسٹ کینسر کے خطرات کم کردیتا ہے۔کیوں کہ جس خاتون کے ماہ واری کے چکر جتنے زیادہ ہوں، اس میں بریسٹ کینسر کے خطرات بھی اُسی قدر بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دورانِ علاج وقتی طور پر ماہ واری بند کرنے کے لیے مخصوص ادویہ بھی تجویز کی جاتی ہیں۔

س:بریسٹ ریموول کے لیےکاؤنسلنگ ضروری ہے؟

ج:بے انتہا اور صرف مریضہ ہی نہیں، اہل خانہ کی بھی ضروری ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ ایسے خاندان جومریضہ کو بہت سپورٹ کرتے ہیں، ہر طرح سے اُس کا خیال رکھتے ہیں، تو وہ مرض کو شکست دینے میں کام یاب ہوجاتی ہیں۔اس کے برعکس جن خواتین کو اہلِ خانہ کے سخت روّیے برداشت کرنے پڑتے ہیں، اُن میں مرض کے خلاف لڑنے کی جنگ سرد پڑجاتی ہے۔

س:کیا علاج کے بعد یا دورانِ علاج ماں، بچّے کو فیڈ کرواسکتی ہے؟

ج:دورانِ علاج بچّے کو دودھ پلانے سے اجتناب برتاجائے اور علاج کے بعد بھی، چاہے پانچ، چھے سال بعدہی حمل ٹھہرے، بریسٹ فیڈنگ سے گریز ہی کریں۔

س:کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کہ مرض سے محفوظ رہا جاسکے؟

ج:متوازن غذا، خاص طور پر سبزیوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، وزن نہ بڑھنے دیں، ورزش معمول کا حصّہ بنالیں۔ بچّے کی پیدایش کے بعد مقررہ مدّت تک اپنا دودھ پلائیں۔نیز، مانع حمل ادویہ، ہارمون ری پلیسمینٹ تھراپی اور تمباکو وغیرہ کا استعمال ہرگز نہ کریں۔

س:کچھ عرصے سے ہر سال ماہِ اکتوبر ’’بریسٹ کینسر آگاہی ماہ ‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے، تو کیا واقعی معاشرے میں آگاہی پھیل رہی ہے یا پھر یہ محض چندپروگرامز کی حد تک محدود ہے؟

ج: یہ اس آگاہی مہم ہی کےثمرات ہیں کہ اب اس موضوع پر بات کرنا مشکل نہیں رہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، کچھ عرصہ قبل بریسٹ کینسر کے موضوع پر میرا ایک پروگرام ریکارڈ کیا گیا ، مگربعض مخصوص الفاظ استعمال کرنے کے سبب سینسر کی نذر ہوگیا ۔

لیکن اب مختلف چینلز پر اس حوالے سے پروگرامز نشر کیے جارہے ہیں،جب کہ انشورنس کمپنیزبھی مختلف اینٹی کینسر پلانز متعارف کروا رہی ہیں، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب آگاہی پھیل رہی ہے۔اور اگر یہ آگہی اسی طرح بڑھتی رہی، تو وہ وقت دور نہیں،جب مرض کی شرح میں بھی کمی واقع ہونا شروع ہوجائے گی۔

س:ـ’’بریسٹ کینسر آگاہی ماہ ‘‘ کے حوالے سے کوئی پیغام؟

ج: سب سے پہلے تو مَردوں کے لیے پیغام کہ اگر خدانخواستہ آپ کے یہاں کوئی خاتون بریسٹ کینسر کا شکارہے، تو اُسے اپنی سپورٹ کا بَھرپور یقین دلائیں۔ چاہے آپ اس کے باپ ہوں، بھائی یا شوہر ، آپ کے نزدیک ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ سے زیادہ اہم اپنی ماں، بہن، بیوی ،بیٹی کی زندگی ہونی چاہیے۔ 

جب کہ خواتین سے یہ درخواست ہے کہ وہ ہر ماہ اپنا معائنہ خود کریں اور اگر معمول سے ہٹ کر کوئی علامت محسوس کریں، تو معالج سے رابطہ کرنے میں بالکل دیر نہ کریں۔

( ڈاکٹر روفینہ سومرولیاقت نیشنل اسپتال اینڈ میڈیکل کالج، کراچی کے شعبہ جنرل سرجری کی سربراہ ہیں اور بطور کنسلٹنٹ، بریسٹ سرجن فرائض انجام دے رہی ہیں)

تازہ ترین