• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروا نئیں!

بچہ اندھیرے میں اونچا بولتا ہے، اس سے تاریکی کا خوف مٹ جاتا ہے، سیاستدان ایک ایسی مخلوق ہے کہ اقتدار سے باہر قدم اور اندر قدم اور، عوام کے علاوہ بے پروائی بھی طاقت کا سرچشمہ ہوتی ہے، دوسروں کا تو پتہ نہیں مگر ہمارے ہاں جب سیاستدان اقتدار میں آ جاتا ہے تو وہ مسائل کے انبار پیدا کر کے کہتا ہے پروا نئیں اوے، دوسروں کی کوتاہیاں اتنی خطرناک نہیں ہوتیں جتنی اپنی، اس لئے بندے کو خود سے ڈرنا چاہئے کیوں کہ انسانی تاریخ میں کسی انسان کو کوئی ایسی تکلیف یا نقصان نہیں پہنچا جس میں اس کا اپنا ہاتھ نہ ہو، اس دنیا میں کوئی بھی تنہا اہم نہیں ہوتا سب مل کر اہم ہوتے ہیں، آزادی ایسی چیز ہے جسے آپ کسی بھی اچھے برے کام کے لئے کام میں لا سکتے ہیں، یہ ہماری سوچ کے زاویئے ہیں جو ہر چیز سے اس کی اصلیت چھین لیتے ہیں، نظریہ اضافیت یا ضرورت سوچنے کے انداز کی پیداوار ہے، آزادی مارچ ہی کو لیجئے یہ بیک وقت کئی طرح کی سوچوں، مصیبتوں سے نجات کی راہ ہے، مولانا خود بھی کسی ایسی سوچ سے آزادی چاہتے ہیں جو انہیں پریشان کر دیتی ہے، الغرض آزادی میں آپ کسی بھی چیز سے آزاد ہو سکتے ہیں، مہنگائی، بیروزگاری، پرانی خرابیوں کی جدائی نئی خرابیوں کی اذیت سے آزادی حاصل کرنا ہمارا بنیادی جمہوری حق ہے، اس لئے کہ ہم نے جمہوریت کے نام پر بھی بہت کچھ کھویا، پایا مگر مزا نہیں آیا، دل کے جلنے سے دھواں نہیں اٹھتا البتہ کسی کا گھر جلنے سے ضرور دھواں اٹھتا ہے،یہ جو دھواں سا اٹھ رہا ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نقصان کیا ہے، مذہب کا کارڈ ہو یا صحت کارڈ اصل میں دونوں ایک ہیں، آزادی مارچ سے مولانا کو کچھ ملے نہ ملے عوام تک اس کے ثمرات پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔

٭٭٭٭

سرفراز، سر نشیب ہو گئے

ہماری نظر میں تو سرفراز کا یہ قصور ہے کہ اس کا کوئی قصور نہیں، بہرحال وہ فکر نہ کریں، کیوں کہ سَر! زندگی میں نشیب و فراز تو آتے ہی رہتے ہیں، اسی سرفراز نے سرفرازیاں بھی دیں، مگر چونکہ ہم پولیس کی طرح کرکٹ کو بھی ٹھیک کرنا چاہتے ہیں کہ دونوں کے عیب لگ بھگ ایک ہیں، کھلاڑیوں کو بدلنے، کپتان تبدیل کرنے کے بجائے جو کرکٹ ذمہ داران ہیں ان کی درستی پر توجہ دی جاتی تو شاید اصلی والی تبدیلی آ جاتی، کرکٹ کو ہاکی کی بددعا لگی ہے، کرکٹ والے آئی کون بن جاتے ہیں ہاکی والے تو کون؟ ہو جاتے ہیں، ہمارے ساتھ من حیث القوم ایک پرابلم ہے کہ ہم معیار برقرار نہیں رکھ سکتے، کمپنی کی مشہوری کے لئے کچھ اچھا کر کے پھر ایک ہاتھ میں گھنٹی دوسرے میں لچھا ہو جاتے ہیں، ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے کھلواڑ بن کر رہ گیا، شاید کرکٹ بھی ہاکی بننے چلی ہے، مصباح اچھے خاصے پلیئر تھے اب وہ بھی طاقچے کا چراغ بن گئے ہیں، حفیظ کو فیصلے کی طرح محفوظ کر لیا ہے، ہاکی اور بلے میں اب وہی فرق رہ گیا ہے جو پچھلی اور موجودہ حکومت میں ہے بلکہ کچھ فرق نہ رہا اب دونوں میں، اسی طرح پیٹ بھی تاریک اور مستقبل روشن ہونے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، سرفراز کی سبکدوشی پر ناچتے کھلاڑیوں کی وڈیو بھی سامنے آ گئی، نواز شریف کے جانے پر کھلاڑیوں کے بھنگڑے چل رہے ہیں لگتا ہے اس ملک کی معیشت، روشن مستقبل اور ترقی و خوشحالی، سیاست کی نذر ہو گئی کرکٹ کو بھی شامل کر لیں تو غلط نہ ہو گا وجہ یہ کہ دونوں طرف پیسہ ہی بڑا ہے خواتین کرکٹ کی کارکردگی دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ کرکٹ کھیڈ ہوندی اے زنانیاں دی۔

٭٭٭٭

مشکل ہے بہت مشکل مہنگائی کا چلے جانا

بعض لوگ کہتے ہیں مہنگائی کہاں ہے جس بڑے سٹور پر جائو رش ہی رش، یہ وہ ساون کے اندھے ہوتے ہیں جن کو خبر ہی نہیں کہ غریب آدمی تو کولڈ سٹوریج ہے وہ بھلا بڑے سٹوروں میں کیسے نظر آئے، ہمارے ملک میں چونکہ غریبوں کی تعداد امیروں سے لاکھ درجے زیادہ ہے اس لئے سٹوروں پر بڑا رش ہوتا ہے، سیاست و اقتدار کی دکانوں پر بھی رش مفلسوں کے باعث ہے مہنگائی اس لئے ہے کہ اسے کنٹرول کرنے والے کنٹرول میں ہیں، جو لوگ مہنگائی کے سبب کنٹرول سے باہر ہیں، ان کا وجود کسی کو کیوں نظر آئے، مولانا اگر آزادی مارچ کو مہنگائی مارچ کا نام دیتے تو بات جوانی تک پہنچ جاتی، بعض اوقات بارش برسانے والی گھٹائیں آ کر چلی جاتی ہیں مگر کچھ دیر کے لئے دل خوش کر جاتی ہیں بھارت اپنا ملبہ ہم پر ہم ان پر ڈالتے ہیں اس سے بڑھ کر پاک بھارت خوشگوار تعلقات کیا ہو سکتے ہیں۔ دونوں کے ہاں غربت، مہنگائی قدر مشترک ہے، اس لئے یہ تو اچھی خاصی رشتہ داری ہے، حکومت، مہنگائی کے خاتمے کے لئے ہر روز میٹنگ کرتی ہے، مگر یہ میٹنگ گلی کی دکان پر بھی بے اثر دکھائی دیتی ہے، اب تو غریبوں کا وہ حال ہے کہ غریب رقعہ چھوڑ جاتا ہے کہ غربت چھوڑ دی میں نے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ غریب کی بیٹی کہتی ہے غربت غربت کر دی نی میں آپے ای مہنگی ہوئی، ، غریب تو رخصت ہو رہے ہیں اس لئے سب کہو غربت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

٭٭٭٭

تبدیلی کھیل

....Oعمران خان کا فضل الرحمٰن کے خلاف لب و لہجہ تبدیل کرنے سے انکار۔

فقہ کا مسئلہ ہے کہ گناہ صغیرہ پر اصرار، گناہ کبیرہ ہے۔

....Oسراج الحق:تبدیلی کا کھیل ناکام، ووٹ دینے والے شرمندہ ہیں۔

مگر ہمارے ہاں ووٹرز شرمندہ ہونے کے لئے پھر تیار ہو جاتے ہیں ’’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں‘‘۔

....O مودی:بھارتی فوج کو دنیا کی طاقتور ترین افواج کے برابر لے آئے۔

فوج کو یا اسلحے کو؟

تازہ ترین