ہمارے نظام شمسی سے ماوراہیئت دانوں نے ایک غیر زمینی سیارہ(ایکسو پلانٹ) کے ماحول میں کچھ ایسے اشاریے دریافت کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر پانی کی بارش ہوئی ہے۔ انتہائی دور فاصلے پر کسی سیارے کے ماحول میں جس کا قطر ہماری زمین سے صرف دو گنا ہے۔ پانی کے سالموں کی موجودگی ایک نئی بات ہے۔
اس سیارہ کو K2-18b کا نام دیا گیا ہے اوریہ کہکشاں میں ہماری زمین سے 110نوری سال کے فاصلے پر ہے۔جب کہ اس کا اپنے ستارے (سورج) سے فاصلہ بھی آبادی کے قابل زون میں ہے۔یہ علاقہ ستارے سے دور وہ فاصلہ ہوتا ہے، جس میں پانی رقیق حالت میں رہ سکتا ہے۔ اس لیے اس کی ہائیڈ روجن سے پُر ماحول میںکسی خلائی زندگی کے ارتقاء کا امکان ہوسکتا ہے۔
کینیڈا کی مونٹریال یونیورسٹی کے سیاراتی ہیئت داں بیورن بینیکے کا کہنا ہے کہ کسی سیارے سے متعلق ایسی دریافت ایک پر جوش بات ہے ۔یونیورسٹی کالج لندن(یوسی ایل) کے سیاراتی ہیئت دان انگلوس تسیراس کے مطابق یہ دریافت بہت دل چسپ ہے ،کیوںکہ اس سیارے کا قطر بھی کرۂ ارض سے صرف دو گنا ہے اور اتنے زیادہ چھوٹے سیاروں کے ماحول کی بابت معلومات بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
سائنس دانوں کے مطابق اس سے قبل پانی کی در یافت دیوقامت گیس کے عظیم سیاروں کے ماحول میں بھی ہو چکی ہے ۔لیکن انتہائی فاصلے پر موجودسیارے جتنے چھوٹے ہو تے جاتے ہیں ان کی بابت معلومات کا حصول بھی اتنا ہی دشوار ہوتا جاتا ہے ۔ ماہرین اس حد کو پار کرنے کے لیےنیپچون سے چھوٹے لیکن کرۂ ٔارض سے بڑے سیاروں کا جائزہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔
جب کہ یہ بات باعث حیرت ہے کہ ابھی تک دریافت کردہ ہزاروں سیاروں میں یہ پیمائش عام ہے ۔بینیکے اور اس کے ساتھیوں نے K2-18b کا جائزہ لینے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا ،کیوں کہ یہ اس کی حد میں آتا ہے۔چناں چہ ا نہوں نے جب ہبل کی خلائی دوربین سے اس کاجائزہ لیاتھا ،ان مواقع پر اس کے اپنے ستارے (سورج ) کے سامنے آنے سے وقتی طور پراس کی روشنی8 مرتبہ مدھم ہوگئی تھی۔
سائنسدانوں نے جائزہ لیا کہ ستارے کی روشنی کے رنگ میں سیارے کے ماحول سے گذرتے ہوئے کیا تبدیلی آئی تھی اور پھراس کا اسپٹزر خلائی دوربین سے حاصل ہونےوالے ڈیٹا سے موازنہ کیا جو روشنی کی ویولینتھ (wavelegth) کی پیمائش کرتی ہے ،جس کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچےہیں کہ سیارے کے ماحول میں نہ صرف پانی کے بخارات پائے جاتے ہیں بلکہ وہ رقیق پانی میں بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ سائنسدانوں نے کسی انتہائی دور چھوٹے سے سیارہ پر پانی کی ایسی سائیکل دیکھی گئی ہے۔ جب وہ گیس سے رقیق میں بدلتا ہے اور بعد میں رقیق پھر گیس میں بدل جاتی ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کی ٹیم اپنے جائزےکے بعد 3ممکنہ نتائج پر پہنچی ہے۔ ان کے خیال سے ان میں سے کوئی بھی ایک ہوسکتا ہے البتہ فی الوقت توتینوں ہی برابر کے وزن دار ہیں۔پہلا امکان یہ ہے کہ سیارہ بادل کے بغیر ہو اور اسکا ماحول 20 فی صدسے 50فی صد تک پانی پر مشتمل ہو ۔دوسرے اور تیسرے ممکنہ نتیجے میں اس کے ماحول میں بادل اور آبی بخارات کی مقدارمختلف ہوسکتی ہے،کیوں کہ سیارےکے ماحول میں پانی کی مقدار0.01 فی صد سے 12.5فی صد تک ہوسکتی ہے۔
لیکن صرف پانی کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ زندگی کی تلاش کے لیے یہ سیارہ بہت اچھی جگہ ہے، جس کی نشا ن دہی کرۂ ارض کے قریب ترین پڑوسی سیارےزہرہ سے معلوم ہوتی ہے۔یہ زمین کے برابر کاسیارہ اپنے ستارہ کے آبادی کے قابل زون میں واقع ہے جو ایک زمانہ میں آبی بخارات کے ماحول کا مالک تھا لیکن سورج کی شعاعوں نے اس کو پانی سے محروم کرکے اس کو ایک بنجر سیارے میں بدل دیا ہے۔سائنس دان کو اُمید ہے کہK2-18b بھی آبادی کے لحاظ سے ایسا ہی سیارہ ہو۔غالبا ًاس کا امکان بہت زیادہ ہے کہ زندگی کو ہم جس طرح سمجھتے ہیں یہ اس طرح آباد نہ ہو۔
یہ بات میری لینڈ بالٹیمور میں اسپیس ٹیلی اسکوپ انسٹی ٹیوٹ میں سیاراتی ہیئت دان حنا ویک نے کہی تھی ۔ڈبلن کے ٹرینٹی کالج کے ایسٹروفزسٹ نیل گبسن کا کہنا ہے کہ کسی سیارے کے ماحول میں پانی کی موجودگی بڑی خوش آئند ہے اور مستقبل میں کیے جانے والے مزید جائزے مثلاً جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کےمنصوبے 2021 ءکا جائزہ یہ طے کردے گا کہ انتہائی دور کی یہ چھوٹی سی دنیا حقیقتاً کیسی ہے ۔