’’جنگ‘‘ کی ایک خبر کے مطابق ’’انٹرپول نے حکومت کی درخواست پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گرفتاری کے لئے ریڈ نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں کلین چٹ دیتے ہوئے ڈیٹا حذف کرنے کی ہدایت کر دی۔
سابق وزیرِ خزانہ نے انٹرپول کو ثبوت فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، میرا نام پاناما لیکس میں ہے نہ ہی میں 20اپریل 2017ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں۔
ادھر انٹرپول نے اسحاق ڈار کو خط لکھ کر مطلع کیا ہے کہ آپ کسی ریڈ نوٹس پر نہیں۔ انٹر پول کے جنرل سیکرٹریٹ نے انٹر پول کے تمام نیشنل سنٹرل بیوروز کو اطلاع دی ہے کہ وہ اپنے سسٹم سے اسحاق ڈار کے بارے میں تمام ڈیٹا حذف کر دیں،
اس طرح انہیں اس بات کا کلین سرٹیفکیٹ دے دیا ہے کہ وہ انٹرپول، نوٹس پر نہیں ہیں۔ پاکستان نے وفاقی وزیر داخلہ کے توسط سے انٹرپول سے سابق وزیر خزانہ کی جو ان دنوں لندن میں مقیم ہیں، گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انٹرپول نے اسحاق ڈار کی جانب سے جمع کرائے گئے شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد یہ درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ کیا۔
فی الحال عاجز اس مشاہدے سے اس رائے کا ذکر نہیں کرتا جو انٹرپول نے اسحاق ڈار کیس کے ضمن میں پیش کی ہے۔ مثلاً 60کی دہائی کے واقعات، 1988اور 1990کے انتخابات، 1970، 1985اور 2002کے تمام انتخابات لوکل باڈیز الیکشنز کا انعقاد اور مارشل لاء، الیکشن کمیشن کے اختیارات کی کمزوری، 2013کے انتخابات کے موقع پر عبوری وزیراعظم کے متفقہ انتخاب پر اختلاف کی کمزوری کی داستان اس طرح اسحاق ڈار کی کہانی ہماری قومی تاریخ کا مزید المناک چہرہ پیش کرے گی۔
مزید وقوع مریم نواز صاحبہ کی ضمانت پر مستقل رہائی کا ہے جسے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عمل میں لایا گیا ہے۔ دو کروڑ کے دو مچلکے انہوں نے جمع کرانے کے علاوہ ضمانت کے معاملے سے مشروط 7کروڑ روپے اور اپنا گرین پاسپورٹ سرنڈر کرنا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت پوری آزادی سے نافذ کر دیا ہے۔عاجز ان دو واقعات کے سلسلے میں اپنے قارئین کی توجہ چند نکات کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہے، ہو سکتا ہے قارئین کو یہ نکات تکرار (Repetation) محسوس ہوں مگر بعض قوموں کی زندگی میں منزل کے حصول کیلئے شاید تکرار ان کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے اور ہمارا بھی قصہ کچھ ایسا ہی ہے۔
مثلاً اسحاق ڈار صاحب جنہیں انٹرپول نے مکمل طور پر کلیئر کرتے ہوئے ان کے کیس میں متعدد مشکوک نکات کی نشاندہی کی ہے، ان کے خلاف پروپیگنڈے کے تحت جو کچھ کیا گیا اور کہا گیا،
چیئرمین تحریک انصاف سے لے کر پارٹی کے دوسرے ارکان تک جو گرد و غبار اڑایا گیا، اتنا زیادہ کہ اس کی دھند سے زمین تا فضا مکدر ہو گئی لیکن آج قومی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر کس کو شرمندگی نصیب ہوئی اور کس کے وقار کو دھچکا لگا، اسحاق ڈار کو یا عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کو؟
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہر دلعزیز رہنما مریم نواز کے متعلق کیا کچھ غیر ذمہ دارانہ تبصرہ آرائی نہ کی گئی، کون سی انتہام تراشی اور الزام بازی نہ تھی جسے سیاست کے بازار کا سودا نہیں بنایا گیا، اُن کی گرفتاری کے سلسلے میں کیسے کیسے ’’عبرت ناک‘‘ جواز پیش کئے گئے،
انہیں اسی معاشرے کی خواتین کے لئے ایک ’’بوجھ‘‘ کی مثل قرار دیا گیا، اس کے برعکس مریم نواز آج بھی پاکستان کے عوام کی پسندیدہ ترین لیڈر ہیں، انہیں یکساں احترام اور قبولیت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، ان کی بات قابلِ احترام بھی ہے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ساری لیڈر شپ ان کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کی معترف بھی ہے اور ان کی شخصیت نے نون لیگ میں ایک نیا جذبہ اور ایک نئی روح پھونک رکھی ہے۔
کہنے سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے سیاسی وادیوں کی سختیاں برداشت کی ہوں ان میں صاحبِ کردار ہونے کی صفت قریب قریب موجود ہوتی ہے اور محض کردار کشی کی روایتی مذموم حرکت انہیں عوامی عدالت میں غیر مقبول نہیں کر سکتی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں موجودہ حکومت پر اُن کے والد کو مطلوبہ میڈیکل سہولتیں نہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو اس کی ذمہ داری عمران حکومت پر عائد ہو گی اور لوگ اس حکومت سے جواب طلب کریں گے، وہ کس شکل میں جواب طلب کریں گے،
اس کا تاریخی تجزیہ ہمیں کسی حتمی نقشے کے بیانیے تک نہیں پہنچاتا البتہ یہ طے ہے، جب عوام نے جواب طلبی کی، خود پرستوں اور خود فراموشوں کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔
جیل آصف علی زرداری نے ایسے کاٹی ہے جیسے مردِ حُر کاٹا کرتے ہیں اور یہ خطاب انہیں پاکستان کے اس محترم صحافی نے دیا جسے پورے ملک کے عوام یکساں عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
6نومبر 2019ء کو وزیراعظم پاکستان کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ’’وزیراعظم نے وزراء کو 3ماہ کے اہداف دے دیئے، خود مانیٹر کریں گے، سیکریٹریوں سے بھی علیحدہ اجلاس۔ مثبت ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ گلے سڑے نظام سے چھٹکارے کے لئے آگے بڑھنا ہے‘‘۔
کون سی مانیٹرنگ اور کہاں کی مانیٹرنگ، ایک سال گزرنے کو ہے اس قسم کے دعوئوں کی قلعی کھل چکی اور عوام کی بیزاری نے ایسے احساسات کی صورت اختیار کر لی ہے، جنہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
وہ کونسی گھڑی ہوگی جب ہمیں نااہل حکمرانوں سے نجات نصیب ہوگی جو اسپتالوں میں ایک ایک ماہ سے ہڑتالیوں کو راہ راست پر نہیں لا سکتے؟ دعا دی ہے نجات کی گھڑی جلد آئے، شاید یہی ہماری قسمت تبدیل کر دے۔