• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن
انسان ایک خوبصورت گھر کا خواب دیکھتا ہے جسے خوابوں کے محل سے بھی تشبیہ د جاتی ہے جسے انسانی اپنی سوچ کے مطابق لگژری بنانا اور دیکھنا چاہتا ہے۔ دنیا جہاں کی آسائشیں بھر د ی جائیں اور ہر آنے جانے والا اور ملنے ملانے والا اسے دیکھ کر متاثر ضرور ہو مگر کچھ لوگ خوابوں کا گھر اسے کہتے ہیں جہاں خوبصورتی سے زیادہ سکون ہو، لگژری کی بجائے صاف ستھرا ہو، آسائشوں کی بجائے سہولیات سے مسرت زیاد محسوس ہو تو ایسا گھر بھی بارونق ہونے کی گواہی دیتا ہے تو ایسے گھروں کو گھر عید تو باہر عید کی مثا ل سے منسلک کیا جاتا ہے گھر میں آسودگی اور سکون نہ ہوتو پھر گھر تو گھر نہیں لگتا صرف چار دیواری کا امکان رہ جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ مکان مکینوں کے بغیر گھر نہیں کہلاتا۔گھر تو ایک تعمیر شدہ عمارت کو کہتے ہیں جہاں جس شخص نے جگہ پائی وہاں عمارت بھی اپنی حیثیت کے مطابق تعمیر کر لی۔ یہ بھی سچ کہ گھر کے سکون کی چھت ایک بہت بڑی نعمت خداوندی ہےجو سکون آپ کو اپنے گھر کی چار دیواری میں ہے وہ کہیں نہیں، مزے کی زندگی آپ اپنی چادر اور چار دیواروں میں ہی پاتے ہیں مگر یورپ کے کچھ نہیں بلکہ کافی سے زیادہ لوگوں نے ایک کھڑی عمارت دیواروں اور چھت سے تیار شدہ گھر کا تصور ہی یوں بدل دیا کہ ضروری نہیں کہ آپ کا گھر ایک کھڑی عمارت میں ہو آپ اپنے گھر کو اپنے ساتھ ہر جگہ چلا سکتے ہیں۔ اب آپ کے ذہن کے پردے پر چلتے پھرتے گھر سے متعلق یہ تصور نہ ابھرے جو بنجاروں سے متعلق یا خانہ بدوشوں سے متعلق ابھرتا ہے کہ جو گھر تو ساتھ لئے لئے پھرتے ہیں مگر وہ گھر پائیدار سے نہیں ہوتے جھونپڑی کی طرح ہوتے ہیں دو تین لکڑی کے بانس کھڑے کئے اوپر سے نہایت موٹا ٹینٹ والا کپڑا ڈال کر سردی گرمی سے تو بچ سکتے ہیں مگر آندھی طوفان اور بجلی کی کڑک اور بارشوں سے نہیں بچ سکتے تو ہم بنجاروں بے ٹھکانہ لوگوں کے گھروں سے متعلق بالکل بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ آجکل کے خانہ بدوش جو یورپ میں پھیلے ہوئے ہیں ان کے پاس اچھے پائیدار قسم کے کاروان ہیں مگر جو کاروان لگژری کے یورپ کے امراء کے پا س ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں یورپ میں خاص کر سکینڈے نیویا میں سیاحت کے شوقین لوگ زیادہ ہیں بلکہ سوئٹزرلینڈ اور جرمن کے لوگ سیاحت میں باقی یورپین ممالک کے مقابلے میں کافی آگے ہیں اور زیادہ وقت دیتے ہیں سیر سپاٹوں کی تو بات جب کاروان نما گھر کی ہو تو زمین میں لگژری کاروان آتے ہیں جو ہم نے یورپ میں رہ کر آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ یورپ میں جگہ جگہ کیمپنگ پیلس ہیں کہیں کسی جنگل میں کہیں دریائوں اور سمندر کنارے اور کہیں شہر سے دور کسی پرسکون جگہ پر وہاں زیادہ تر ریٹائرڈ یا جو کام سے زیادہ سپر سپاٹے پسند کرتے ہیں وہ لوگ زیادہ تر کاروان لےکر آتے ہیں اور مختلف شوق رکھتے ہیں جیسے دریائوں سے مچھلی پکڑ نا ان کا خاص شوق ہے۔ سمندر کنارے دھوپ سینگنا بھی اچھا لگتا ہے نوجوان لوگ زیادہ تر کیمپ لگا کر رہتے ہیں یا پھر سمرکاٹیج جو وہاں بنے ہوتے ہیں وہاں رہتے ہیں۔ کچھ ہمیں بھی کیمپنگ کا شوق رہا ہے اسی لئے بہت قریب سے کاروان والی سرگرمیاں دیکھی ہیں کہ ایک الگ ہی جہان لگتا ہے وہاں تمام لوگ شہر کے ٹائون سینٹر میں فشنگ کر کے ہارس رائیڈنگ کرنے کے علاوہ بھی تمام ایکٹیویز کر کے آتے ہیں تو شام میں تمام لوگ سب سے بڑے بس نما کاروان میں جمع ہو جاتے ہیں دیکھنے میں وہ سیدھی سی بس ہوتی ہے مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب وہ ایسے کشادہ ہوتی جاتی ہے جیسے کوئی بڑا سا پرندہ کھڑے ہو کر اپنے دائیں بائیں سے پر پھیلائے اور پھیلاتا جائے تو وہ کاروان نما بس ایک بڑا سا خوبصورت ڈرائنگ روم بن جاتا ہے جہاں کوئی گٹار ، کوئی وائلن، کوئی مائیک پکڑ کر محفل موسیقی شروع کر دیتا ہے سننے والے بھی آس پاس سے آجاتے ہیں کیونکہ ہر کاروان والے آپس میں ایک دوسرے سے واقف ہو کر دوستی کر لیتے ہیں اس لئے کہ وہ ہفتہ یا دو تین ہفتے وہاں ٹھہرتے ہیں پھر اگلے پڑائو کی طرف چل پڑتے ہیں تو پھر کاروان میں خوب مستی کی جاتی ہے خوش گپیاں ہوتی ہیں جام چھلکائے جاتے ہیں۔ کافی دیر تک جاگنے کے بعد پھرسب اپنی اپنی جگہ چلے جاتے ہیں جہاں ان کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے کاروان ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے جوڑے بھی تھے جو کافی خوشحال تھے مگر اپنے بڑے بڑے گھر بیچ کر بچوں کو ان کا حصہ دیکر اب وہ خوبصورت سا گھر کاروان نما لئے پھرتے ہیں دنیا بھر میں جہاں ان کا جی چاہے ان میں سے کئی رائل فیملیز کے دوست احباب بھی ہوتے ہیں جو خوب صاحب حیثیت ہوتے ہیں ان کے کاروان لگژری تو ہوتے ہی ہیں کہ جہاں فرج ٹی وی اوون تو عام سی بات ہے مگر ان کے ڈرائنگ روم میں ڈیکوریشن پیسز نہایت قیمتی کے علاوہ چھوٹی سی بار بھی بنی ہوتی ہے۔ بیڈ روم بھی شاہی محل جیسے بیڈ روم کا نقشہ پیش کرتے ہیں اندر ہی غسل خانہ سے علاوہ لانڈری کی جگہ بھی ہوتی ہے یعنی واشنگ مشین اور ڈش واشر تک کاروان میں لئے پھرتے ہیں یورپ ہی میں ہمیں کچھ میڈیا اور شو بز کے ریٹائر لوگ بھی نظر آئے تو ہم نے ان سے پوچھا امریکہ، یورپ یوکے میں کہاں رہتے ہیں تو وہ کہنے لگے ’’کہیں بھی نہیں! ہم نے حیران ہو کر دو تین مرتبہ پوچھا ان کا واضح جواب یہ تھا کہ ’’کاروان گھر ہو تو ہم سیلانی ٹھہرے‘‘ یعنی اب وہ جگ جگ گھومیں گے چلتا پھرتا گھر لے کر۔ ہم نے کچھ تنہا بے گھر بھی دیکھے جنہوں نے اپنی وین یا عام سی گاڑی کو بھی کاروان نما گھر بنا لیا تھا اور تنہا زندگی بسر کر رہے تھے بے فکر اورخوبصورت جہان بنانا کوئی یورپین لوگوں سے سیکھے۔ ایک ہم لوگ ہیں کہ حساسیت ہی اور فکریں ہی مار دیتی ہیں۔تو ابھی پچھلے دنوں مولانا فضل الرحمٰن کے کاروان پر بات ہوتی رہی کہ انہوں نے اپنے دھرنے کا آغاز کنٹینر سے نہیں بلکہ کاروان ہوم سے کیا جو صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کی ملکیت ہے جو انہوں نے مولانا کی سہولت کی خاطر دیا ہم حیران ہیں کہ جب پاکستان میں جدید سہولیات کی کمی نہیں تو منسٹر صاحبان کاروان ہوم کیوں نہ رکھے اپنی مزے کی لائف کیلئے جبکہ لگتا ہے کہ آگے آگے لوگوں کو چلتا پھرتا گھر ہی چاہئے ہو گا اپنی سیلانی طبیعت کے پیش نظر۔
تازہ ترین