• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف جانا چاہیں تو دو دنوں میں چلےجائیں برطانیہ سے شہری لانے میں 6سال لگ گئے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے برطانوی جیل میں قید پاکستانی طارق عزیز کو پاکستان کی جیل میں منتقل کرنے کے مقدمہ میں وزارت داخلہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف جانا چاہیں تو دو دنوں میں چلےجائیں، یہاں چھ سال لگے طے کرنے میں کہ برطانیہ سے پاکستانی شہری کو واپس کیسے لانا ہے؟ایک ملک دوسرے ملک کیلئے اتنا کام نہیں کر سکتا تو یہ ایمبیسیاں بند کر دیں ، عدالتی حکم پرعمل نہ کیا گیا تو سیکرٹری خارجہ ، سیکرٹری داخلہ اور برطانیہ میں پاکستانی سفیر کو جیل بھیج دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو وزارت خارجہ ، وزارت داخلہ اور اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے نمائندے عدالت پیش ہوئے،فاضل جج نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ ، سیکرٹری خارجہ اور برطانیہ میں پاکستانی سفیر کو اس عدالت میں پیش ہونا پڑے گا ، تینوں افسران برطانیہ کی جیل میں قید پاکستانی کو ساتھ لے کر پیش ہوں اوراگر عدالتی حکم کے مطابق پاکستانی قیدی کو عدالت کے سامنے پیش نہ کیا تو ان کے خلاف فوجداری کارروائی کروں گا ، انہوں نے کہا کہ وزارتوں کے نمائندے لکھ کر دیں کب مجرم کو عدالت کے سامنے پیش کریں گے ، برطانیہ میں پاکستانی سفیر کو بتا دیں اس شخص کو ساتھ نہ لایا تو واپس نہیں جا سکیں گے ، عدالتی حکم پر عمل نہ کیا تو سیکرٹری خارجہ ، سیکرٹری داخلہ اور سفیر کو جیل بھیج دوں گا ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف جانا چاہے تو دو دنوں میں چلا جائے ، یہاں چھ سال لگے طے کرنے میں کہ برطانیہ سے پاکستانی شہری کو واپس کیسے لانا ہے ،یہی سب دیکھنے کے بعد تو لوگ باتیں کرتے ہیں، اگر ایک ملک دوسرے ملک سے یہ کام بھی نہیں کراسکتا تو یہ ایمبیسیاںبند کردیں ،فاضل جج نے کہا کہ ایک وزارت دوسری وزارت کیساتھ پنگ پانگ کھیل رہی ہے تیسری رٹ میں 24 ویں سماعت ہے ، وزیر اعظم کو کہا کہ سیکرٹری داخلہ ، خارجہ اور پاکستان میں برطانوی سفیر کیخلاف ایکشن لیں ، پتہ نہیں نظام کیسے چلا رہے ہیں؟ اس موقع پر کابینہ ڈویژن کے نمائندے نے کہا کہ کابینہ سیکرٹری نے تینوں کے خلاف ایکشن کے لئے وزیراعظم کو لکھا ہوہے جس پر عدالت نے کہا کہ کیا وزیر اعظم کو کوئی امر مانع ہے کہ وہ کوئی آرڈر جاری کریں ، گریڈ ایک سے 21 تک ملازمین صرف خط و کتابت کی حد تک ہیں ، ہمیں وزیراعظم کے آرڈر کی ضرورت نہیں ہے ہم نے تو صرف بتایا ہے کہ یہ آپ کے کرنے کا کام ہے ، اگر کام نہیں کرنا تو ہائی کمیشن کو بند کردیں ، ملک و قوم کا اربوں کروڑوں روپے لگ رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب سارے نظام کو گالیاں دیتے ہیں تو کوئی جواب نہیں دیتے ، ہائی کمیشن والے ڈالروں اورپائونڈ میں تنخواہیں لے رہے ہیں اور لوگ مر رہے ہیں ، ان اداروں میں جب کوئی کام نہیں کرسکتا تو استعفی دے کر گھر چلا جائے ، بعد ازاںعدالت نے وزارت داخلہ کے نمائندہ کو ہدایت کی کہ لکھ کر دیں وگرنا تحریری فیصلہ جاری کروں گا،کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی ۔
تازہ ترین