لاہور(نمائندہ جنگ،مانیٹر نگ سیل،اے پی پی) چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اعلیٰ حکام کی بار بار عدالتوں میں پیشی میرے نزدیک نامناسب ہے، ہمیشہ خیال رکھا عدالت میں پیش ہونے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کی عزت نفس مجروح نہ ہو، اگر مجھے نظر بھی آرہا ہے کہ اس نے قتل کیا تب بھی قانون سے ثابت ہونا ضروری ہے، ہمارا کام انصاف کرنا نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے، جھوٹی گواہی کے سد باب کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے،جھوٹی گواہی پر تفتیشی افسر کو بھی ملزم بنایا جائے گا، 15؍ جھوٹے گواہوں کیخلاف کارروائی شروع کرادی، جھوٹے گواہ بنانے والے تفتیشی افسروں پر فوجداری مقدمے بنیں گے۔
سپریم کورٹ انصاف کی اعلی ترین آخری عدالت ہے، حکام کام کر رہے ہوں تو عدالتوں کو مداخلت کی ضرورت نہیں ہوتی، ادارہ متحرک ہو تو عدالت کو نوٹس لینے کی ضرورت نہیں پڑتی، اندارج مقدمہ کی درخواستوں میں اضافے سے عدالتوں پر بوجھ بڑھ گیا، تھانہ میں مقدمات بروقت درج کرنا یقینی بنایا جائے، ریٹائرڈ پولیس افسران نے بھی پولیس اصلاحات کمیٹی میں کردار ادا کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز لاہور میں سنٹرل پولیس آفس میں دورے کے
موقع پر افسران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ میرے زمانہ طالبعلمی سے ہی پولیس کے ساتھ لگاؤ ہے، 1976ء میں زمانہ طالبعلمی کے دوران پولیس کے ساتھ اچھے تعلق کی ایک بڑی وجہ میرا گھرانہ بھی ہے کیونکہ میرے بڑے بھائی پولیس میں سروس انجام دے چکے ہیں۔
انہوں نے کہا ہمارا کام انصاف کرنا نہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے۔جھوٹی گواہی کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے، جھوٹی گواہی پر تفتیشی افسر کو بھی ملزم بنایا جائے گا، یہ ممکن نہیں کہ تفتیشی افسر کو سچ کا پتہ نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ بطورچیف جسٹس میری پہلی ترجیح عدالت میں پیش ہونےوالوں کے احترام کی بحالی رہی ہے کیو نکہ عدالتوں میں پیش ہونےوالے حکام کا احترام نہیں کیا جاتا تھا، میری پہلی ترجیح رہی ہے کہ عدالت بطورعدالت ہی کام کرے، ہمیں یقینی بنانا ہے کہ عدالتیں انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔
اعلیٰ حکام کی عدالتوں میں بار بار پیشی میرے نزدیک درست نہیں۔سپریم جوڈیشل کونسل میں ہائی کورٹ کے سینئر جج کو عدالت میں پولیس افسر کے بے عزتی پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کیلئے تفتیشی افسران کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ انکی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کے مطابق طے کی گئی مدت میں چالان عدالت میں پیش کریں اور جھوٹی گواہی کو کسی ریکارڈ کا حصہ نہ بنائیں اور جھوٹی گواہی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے جھوٹی گواہی کے حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ یہ کسی صوررت قابل قبول نہیں اور اب تک جھوٹی گواہی کی بنیاد پر 15جھوٹے گواہان کے خلاف کاروائی کی گئی ہے اور آئندہ کسی بھی مقدمے میں اگر کسی تفتیشی افسر نے جھوٹے گواہ پیش کئے تو اسے بھی اس جرم میں برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر سچا گواہ کمزور ہو یا اس میں گواہی دینے کی ہمت نہیں توکیا اس کی جگہ جھوٹے گواہ اور جھوٹ کی اجازت دیدی جائے جسکی ہمارے مذہب میں بھی سختی سے ممانعت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کام انصاف کرنا نہیں بلکہ ہمارا کام قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے، یہ ہمارے حلف میں ہے آئین میں لکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مجھے نظر بھی آرہا ہےکہ اس نے قتل کیا ہے لیکن قانون میں نہیں ثابت ہوتا تو میرا فرض ہے کہ چھوڑ دوں۔ اللّہ تعالیٰ کا نظام بھی یہی ہے۔
اللّہ کہتا ہے کہ جرم کے بارے میں چار گواہ لاؤ اور اگر تم چار گواہ نہیں لاسکتے تو تم جھوٹے ہو اور یہ ایک اسٹینڈرڈ آف پروف مقرر کر دیا گیا ہےاور اس اسٹینڈرڈ پر اگر ثبوت نہیں آرہا تو سزا نہیں ہوسکتی۔
چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدلیہ کی آزادی جتنی اہمیت کی حامل ہے اتنی ہی اہمیت پولیس کی آزادی کی ہے اور جرائم کنٹرول کرنے کے لیے محکمہ پولیس کا آزاد ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ عدلیہ کی آزادی ضروری ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب بھی ملک میں کوئی مسئلہ عوامی توجہ حاصل کرتا تو سوموٹوکی توقع کی جاتی۔ کسی میں گواہی دینے کی ہمت نہیں تو انصاف نہ مانگیں، تہیہ کرلیں کہ ہم نے جھوٹی گواہی کونہیں ماننا، انصاف کرنا مقصدنہیں بلکہ قانون کے مطابق انصاف کرنا ہمارا مقصد ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ پولیس افسران نے بھی پولیس اصلاحات کمیٹی میں کردار ادا کیا، پولیس اصلاحات کے لیے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کمیٹی تشکیل دی، بطور وکیل اور جج پولیس کے ساتھ ہمیشہ بہتر تعلق رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں آئی جیزکا بہت مشکورہوں کہ ہرضلع میں شکایت کے لئے ایس پی مقررکیے اب لوگوں کو اپنی شکایات کے لیے مقدمے اورعدالت کی ضرورت نہیں رہی، ایک لاکھ 20 ہزار شکایات میں سے ایس پی کی سطح پر 80 فیصد مسئلے حل ہوئے اور شکایات کرنے والے ان فیصلوں سے مطمئن ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ انصاف کی فوری فراہمی کے لیے ماڈل کورٹس شروع کی گئیں ماڈل کورٹس کی وجہ سے عدالتوں میں انقلاب آیا، میری اوّلین ترجیح عدالتوں میں پیش ہونے والوں کا وقار برقرار رکھنا ہے۔ ہمیں یقینی بنانا ہے کہ عدالتیں انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ملک میں عوامی نوعیت کا کوئی واقعہ پیش آتا تو شور مچ جاتا ہے کہ چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینا چاہیے،لیکن سپریم کورٹ انصاف فراہم کرنے کا آخری ادارہ ہے جسے پہلا پلیٹ فارم نہیں بننا چاہیے، پہلے دن ہی مداخلت کی جائے تو معاملات الجھ جاتے ہیں، کچھ کیسز میں نوٹس لیا گیا اور کہا گیا دہشت گردی کامعاملہ ہے لیکن بعد میں معاملہ ذاتی دشمنی کا نکلا، تب ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں سے بچنے کیلئے ضلعی کمیٹیوں کا کردار اہم ہے، انصاف کی تیز تر فراہمی میں پولیس تفتیش کا بنیادی کردار ہے، اصلاحات کی بدولت ہائی کورٹس میں اپیلیں دائر ہونے میں پندرہ فیصد کمی آئی۔ اس سے قبل سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی زیر صدارت ریفارمز کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پولیس اصلاحات کے بارے میں اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
چیف جسٹس نے عدالتوں میں اندراج مقدمہ کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اندراج مقدمہ کی درخواستوں کے اضافہ سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ چکا ہے۔ پولیس اصلاحات پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ تھانہ میں مقدمات کی بروقت اندراج کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے پولیس کمپلینٹ سیل میں موصول شکایات کے فوری ازالہ کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے معیار کو بہتر کرنے سے متعلق اقدامات یقینی بنایا جائے۔ ملزموں کی بریت ،اور ضمانتوں سے متعلق کیسز پر جواب بروقت جمع کرایا جائے۔
اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹرجسٹس گلزار احمد ، وفاقی سیکرٹری قانون ڈاکٹر رحیم اعوان، آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار، آئی جی آزاد کشمیر صلاح الدین خان اور آئی جی گلگت بلتستان ثناءاللّہ عباسی، آئی جی پنجاب عارف نواز اور آئی جی سندھ سید کلیم امام ، آئی جی بلوچستان محسن حسن بٹ اور آئی جی کے پی کے محمد نعیم اعوان ، ڈی جی ایف آئی اے اعجاز حسین کی بھی شرکت کی۔
اس سے قبل سنٹرل پولیس آفس آمد پر پولیس کے چاک و چوبند دستے نے چیف جسٹس آف پاکستان کو سلامی پیش کی جس کے بعد چیف جسٹس نے پولیس میوزیم کا دورہ کیا، جہاں ڈی آئی جی لیگل جواد احمد ڈوگر نے انہیں پنجاب پولیس کی تاریخی ورثے اور ریکارڈ میں محفوظ نادر دستاویزات کے متعلق بریفنگ دی۔
ڈی آئی جی آئی ٹی ذوالفقار حمید نے چیف جسٹس کو پنجاب پولیس کے آئی ٹی پراجیکٹس اور جدید پولیسنگ کے حوالے سے کئے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق پنجاب پولیس کے ورکنگ سسٹم کو اپ گریڈ کیا گیا ہے جس سے پولیس کی پرفارمنس میں خاص طور پر بہتری آئی ہے۔ پولیس میوزیم کے دورے کے بعد چیف جسٹس نے پولیس افسران سے خطاب بھی کیا۔
آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے سنٹرل پولیس آفس آمد پر چیف جسٹس آف پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب پولیس شہریوں کو انصاف کی فراہمی اور زیر التوا کیسز کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عدالتو ں کو ہر ممکن معاونت فراہم کررہی ہے اور میں پنجاب پولیس کی جانب سے یہ یقین دلاتا ہوں کہ انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ کے احکامات پرنہ صرف من و عن عمل درآمد جاری رہے گا بلکہ انصاف کی فراہمی کے لیے پولیس عدلیہ کے ساتھ تعاون اور اقدامات کو ہر سطح پر یقینی بنائے گی۔