اللہ جانے یہ سگریٹ کس بدبخت نے ایجاد کیا تھا، بہرحال جس کسی نے بھی ایجاد کیا تھا آج کے دور کی تحقیقات کے مطابق اس کا انتقال پُرملال سگریٹ نوشی ہی کے نتیجے میں ہوا ہوگا اور اگر اس وجہ سے نہیں ہوا تھا تو مشاہیر کی خبروں پہ ریسرچ کرنے والے ایم آر شاہد کو چاہئے کہ پہلے تو وہ یہ پتا کرے کہ سگریٹ ایسی موذی چیز کو کس موذی نے ایجاد کیا تھا، اس کے بعد اس کی قبر تلاش کرے اور پھر میری فرمائش پر اس کے سرہانے کھڑا ہو جائے اور کسی کاغذ پر لکھے وہ تمام نقصانات پڑھنا شروع کر دے جو سگریٹ نوشی کے نتیجے میں انسانی جسم کو پہنچتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایم آر شاہد کو اگر قبر سے آہ و فغاں اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دیں تو شاہد یہ آوازیں اپنے ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ کرکے مجھے سنائے اور یوں مجھ ایسے سگریٹ نوش کے دل کو سکون آ جائے کہ اگر سگریٹ کے موجد کی موت سگریٹ نوشی سے نہیں بھی ہوئی تھی تو بھی سگریٹ نوشی کے محض نقصانات سن کر اس کی روح کو جو اذیت پہنچی میں اس اذیت کے ’’صدقے‘‘ میں اس کی موت کو سگریٹ نوشی ہی کے کھاتے میں ڈال دوں گا۔
اور مسئلہ صرف سگریٹ کے موجد ہی کا نہیں، ماچس اور لائٹر کا بھی ہے کہ یہ دونوں چیزیں سگریٹ کے ساتھ جہیز میں آتی ہیں۔ میرا ایک سگریٹ نوش دوست ان دونوں کے خلاف ہے۔ ماچس سے تو اسے چڑ ہے کہ اس کے بقول اس کا مسالا جو سگریٹ سلگانے کیلئے ہوتا ہے سگریٹ کے بجائے اکثر اچھل کر اس کے کپڑوں پر آن گرتا ہے اور پھر وہ لوگوں سے پوچھتا پھرتا ہے ’’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘۔ میرے اس دوست کو یہ بھی گلہ ہے کہ ماچس کی تیلیوں کا مسالا اتنا واہیات ہوتا ہے کہ دس تیلیاں جلائو تو ایک جلتی ہے اور یہ تیلیاں بھی اتنی ناتواں ہوتی ہیں کہ اگر کان کی میل نکالنے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ آدھی ٹوٹ کر میل کے ساتھ ہنی مون منانے کیلئے کان کے اندر تک چلی جاتی ہیں۔ میرے اس شکی دوست کا خیال ہے کہ یہ تیلیاں ای این ٹی کے ڈاکٹروں سے کمیشن لے کر بنائی جاتی ہیں۔
باقی رہا لائٹر تو بنیادی طور پر یہ میرا مسئلہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم مجھے اپنے دوستوں کی طرف سے جو چیز اکثر تحفے میں ملتی ہے وہ گیس لائٹر ہے اور گیس لائٹر کو جو چیز ورثے میں ملی ہے وہ گیسٹرک ٹربل ہے یعنی ہر دوسرے تیسرے دن اس گیس لائٹر میں گیس ختم ہو جاتی ہے، باقی صرف لائٹر رہ جاتا ہے اور اس لائٹر کی حیثیت ایک پرانی فلم ’’سات لاکھ‘‘ کے اس ڈائیلاگ کی مانند ہوتی ہے جس کے مطابق ’’تم یہ سات لاکھ روپے گن سکتے ہو مگر خرچ نہیں کر سکتے‘‘ چنانچہ اس بے گیس لائٹر کو ’’شو شا کیلئے ہاتھ میں پکڑا جا سکتا ہے، کسی کے سر کا نشانہ لیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس سے کوئی کام نہیں لیا جا سکتا تو وہ سگریٹ سلگانے کا کام ہے یعنی جس طرح انسان کو دردِ دل کے واسطے پیدا کیا گیا ہے مگر وہ دردِ سر بن کر رہ گیا ہے، اسی طرح یہ بے گیس لائٹر بھی بے فیض لائٹر ثابت ہوتا ہے کیونکہ وقت پڑنے پر اپنے فرائض ’’منصبی‘‘ ادا کرنے کے بجائے یہ ’’تجاہلِ عارفانہ‘‘ سے کام لینے لگتا ہے۔ گیس لائٹر میں ایک ٹربل یہ بھی ہے کہ اگر ذرا سی ہوا بھی چل رہی ہو اور اس دوران اسے جلانے کی کوشش کی جائے تو یہ جواب میں میر انیس کا یہ شعر بزبان حال پڑھنے لگتا ہے۔
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
چنانچہ جو ’’سخن فہم‘‘ ہیں وہ اپنے ارادے سے باز رہتے ہیں یعنی اگر پنکھا بھی چل رہا ہو تو لائٹر نہیں جلاتے لیکن جو ’’سخن ناشناس‘‘ ہیں وہ لائٹر جلانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچی کھچی گیس ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ متذکرہ صورتحال میں ایک چیز اور بھی ہے جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس چیز کو شرفا اپنی زبان میں شرمندگی کہتے ہیں۔ مجھے عزیزی لائٹر سے ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ماچس کے مقابلے میں اس کی افادیت بہت کم ہے مثلاً بچہ رو رہا ہو تو ماچس کھڑکا کر اسے چپ کرایا جا سکتا ہے، اس کی تیلی کے مسالے والے حصے پر روئی لپیٹ کر کان کی میل نکالی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد دوسرے سرے سے خلال کیا جا سکتا ہے۔ ان ہر دو صورتوں میں نتائج کی ذمہ داری بہرحال ماچس پر نہیں ہوگی، فارغ اوقات میں ایک تیلی جلا کر اس سے دوسری تیلی کا مسالا جلایا جائے تو دل سلگنے کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے اور اگر دل واقعی سلگ رہا ہو تو ایک تیلی سے بیک وقت پوری ماچس کو جلا کر یوں لگتا ہے جیسے دشمن کی چھائونی کو آگ لگا دی ہو۔ بہرحال لائٹر میں مجھے جس کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ آپ اس سے خلال نہیں کر سکتے۔ یہ میں کوئی سنی سنائی بات نہیں کر رہا بلکہ میں دو ایک بار لائٹر سے خلال کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔ خیر یہ تو سبھی فروعی مسائل ہیں، گیس لائٹر سے میری شکایت کی اصل بنیاد اس کی گیسٹرک ٹربل ہی ہے یعنی ادھر گیس بھریں، ادھر ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد یہ لائٹر نہیں، ’’لائبلٹی‘‘ بن جاتا ہے۔ اسی طرح کے کئی لائٹر مختلف مواقع پر میرے دوستوں نے گیس بھر کر مجھے بطور تحفہ محبت سے پیش کئے ہیں چنانچہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط کے علاوہ مرنے کے بعد میرے گھر سے کچھ لائٹر بھی برآمد کئے جا سکتے ہیں۔ جو لائٹر شعلہ نہ دے، وہ شعلہ نہیں راکھ کا ڈھیر ہے اور یہ بات لائٹروں پر ہی نہیں رائٹروں پر بھی صادق آتی ہے، چنانچہ صورتحال یہ ہے کہ لائٹر کے علاوہ رائٹر بھی ان دنوں کسی کونے کھدرے میں چھپتے نظر آتے ہیں یا پھر کسی کی جیب سے برآمد ہوتے ہیں۔