لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر کے وزارتِ قانون و انصاف سے خصوصی عدالت کی تشکیل اور سمری طلب کر لی۔
فاضل عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کر لیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی درخواست پر بطور اعتراض کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت فاضل عدالت نے کہا کہ ٹی وی کی خبر ہے کہ اسلام آباد میں بھی کوئی درخواست دائر ہوئی ہے، جس پر پرویز مشرف کے وکیل خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ وزارتِ داخلہ نے درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی ہے۔
عدالت نے سابق صدر کے وکیل سے استفسار کیا کہ جو نظرثانی کی درخواست ہے اس میں آپ کیوں درخواست نہیں دائر کرتے، اس میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت کو ہدایات دے رکھی ہیں۔
سابق صدر کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ جب پرویز مشرف پاکستان آئیں گے چاہے جس شہر میں اتریں سب سے پہلے ٹربیونل کے فیصلے کا سامنا کریں گے، ٹربیونل یا خصوصی عدالت خود ہی غیر قانونی ہے۔
فاضل عدالت نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ بد قسمتی سے اس ملک میں ہر چیز کے ڈائنامکس بدلتے ہیں، آپ کی ساری باتیں ٹھیک ہوں گی مگر بتائیں یہ عدالت کیسے سماعت کر سکتی ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے 2017ء میں اپنے حکم پر نظرِ ثانی کی کیونکہ کسی کا بنیادی حق متاثر ہوا تھا۔
عدالت نے کہا کہ کوئی شخص یہ کہہ دے کہ اسے سارا قانون آتا ہے تو وہ بڑی غلط فہمی میں ہے، قانون مسلسل پڑھنے سے آتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے کیسز آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیئے: سنگین غداری کیس، فیصلہ رکوانے کیلئے درخواستیں دائر
دورانِ سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سابق صدر کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے ہیں؟
جس پر فاضل عدالت کو بتایا گیا کہ پرویز مشرف ٹرائل عدالت کی اجازت سے بیرون ملک گئے ہیں۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست پر عائد اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست قابلِ سماعت قرار دے دی۔
وزارتِ قانون و انصاف سے خصوصی عدالت کی تشکیل اور سمری طلب کر لی جبکہ اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کر لیا۔