اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں وزارت داخلہ کی خصوصی عدالت کا فیصلہ رکوانے کی درخواست منظور کرلی اور خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا۔
سنگین غداری کیس سے متعلق سابق آرمی چیف جنرل(ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا محفوظ کیا گیا فیصلہ رکوانے کی درخواست پر سماعت کی گئی، عدالتی حکم کے باوجود سیکرٹری قانون کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پرویز مشرف سنگین غداری کیس سے متعلق وفاق کی جانب سے دی گئی درخواستوں پر سماعت کے دوران سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کو روسٹرم پر کھڑے ہونے کے بجائے نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کی گئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کا کہنا تھا کہ اس سے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا، وزارت قانون کے نمائندے فائل لے کر باہر چلے گئے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019 کو تشکیل ہوئی، ہماری استدعا ہے کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ نہ سنائے۔
سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سیکرٹری قانون کو تمام اوریجنل ریکارڈ کے ساتھ طلب کیا تھا، کیا آپ تمام ریکارڈ ساتھ لائے ہیں؟
سنگین غداری کیس کے دوران جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ سربراہ پراسیکیوشن ٹیم کےمستعفی ہونے پر وفاقی حکومت نے کوئی نئی تقرری نہیں کی، ایک سال سے پراسیکیوشن ٹیم کے سربراہ کی تقرری نہیں کی گئی۔
جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی، اب آپ بتا رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس مضحکہ خیز بھی ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ہدایت کی کہ سیکرٹری قانون و انصاف کو کہیں کہ آدھے گھنٹے میں عدالت پہنچیں، ڈپٹی سالیسٹر وزارت قانون کو کمرہ عدالت سے باہر جا کر سیکرٹری قانون کو عدالتی حکم سے آگاہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا ۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ اکتوبر 1999 کے اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دے دیا گیا، آپ اس سے متعلق الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مزید کہا کہ تین نومبر کی ایمرجنسی کا ٹارگٹ عدلیہ تھی، یہ ہم سب کےلیے ایک انتہائی پیچیدہ کیس ہے، ایک شخص جس نے عدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اُس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہوا ہے، ہم نے اس کے فیئر ٹرائل کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں ۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہم نے اس کے فیئر ٹرائل کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں، آیا کون سی پٹیشن ہے کہ وہ آ کر کہہ رہا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا وہ غلط ہے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔
سنگین غداری کیس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو اتنے سالوں کے بعد اب معلوم ہوا کہ وفاقی حکومت کی داخل کردہ شکایت درست نہیں، اگر ایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لے لیں، آپ یوں کہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کیا آج وفاقی حکومت پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل نہیں کرنا چاہتی؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس وزارت قانون کی ضرورت ہے کہ وہ جو نوٹیفکیشن کرتے ہیں وہ غلط ہوتا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو آپ نئی شکایت داخل کر کے غلطی درست کر دیتے ، جائیں جا کر بیان دیں ہم مشرف کے خلاف درخواست واپس لے رہے ہیں، عدالت میں کیوں آئے ہیں، اگر آپ نے تب غلطی کی تھی تو اب اسے ٹھیک کیسے کرائیں گے؟
واضح رہے کہ اس سے قبل ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) پرویز مشرف سے متعلق وفاق کی درخواست کی پیروی سے انکار کردیا تھا ۔
سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کی پیروی سے انکار کرتے ہوئےطارق کھوکھرنے کہا تھا کہ ان کا ضمیر انہیں اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کیس کی پیروی کریں۔
ان خیالات کا اظہار ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران کیا تھا۔