میرپورخاص سمیت زیریں سندھ میں آئے دن نجی جیلوں اور جبری مشقت کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔نجی جیلوں میں ہاریوں کو محبوس کرکے جبری مشقت لینے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے ۔ عدلیہ کے احکامات یا خفیہ ذرائع سے اطلاعات ملنے کے بعدپولیس ان کے خلاف اکثر و بیشتر کارروائیاں کرتی ہے۔ان میں غیر قانونی طور پر قید رکھے جانے والے قیدیوں کو بھی بازیاب کراتی ہے لیکن یہ سلسلہ اس کے باوجود جاری رہتا ہے۔
مارچ 2015 میں ضلع سانگھڑ میں سیشن کورٹ کے حکم پر کھپرو پولیس نے دو مختلف مقامات پر چھاپے مار کر61ہاری بازیاب کرائے جن میں بیس خواتین اور اٹھارہ بچے بھی شامل تھے،جن کا تعلق ہندؤوں کی کولہی برادری سےتھا۔ اس سلسلے میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ بازیاب ہونے والے ہاریوں کے معصوم بچوں اور خواتین کے کپڑے پھٹےاور پاؤں ننگے تھے۔دسمبر 2016 میں سانگھڑ ضلع میں ہی خفیہ اطلاع ملنے پر پولیس نےرکن قومی اسمبلی کی زرعی زمین پر قائم مبینہ جیل میں قید چودہ افراد کو بازیاب کرایا گیاجن کا تعلق بھیل قبیلے سے تھا۔ ان افراد میں چھ بچے چار خواتین اور چار مرد شامل تھے۔ستمبر 2017 میںڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خیرپور سید غلام شاہ کے حکم پر فورتھ سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ بہادر علی مہیسر نے خیرپور کے کچے کے علاقے میں ایک بااثر زمیندار کی نجی جیل پر چھاپہ مارکر اس میں قید 20ہاری بازیاب کرائے۔
رواں سال اگست میں ڈگری پولیس نے سیشن کورٹ کے حکم پر مبینہ نجی جیل پر کارروائی کرتے ہوئے تین معصوم بچوں سمیت ہاری خاندان کے آٹھ افراد کو بازیاب کرایا جب کہ جی ایم پولیس نے بھی 10 محبوس افراد کو غیر قانونی قید سے نجات دلائی، جہاں ان سے بیگار لی جاتی تھی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نجی جیلوں کے بارے میں آئے دن بالائی سندھ میں بازگشت سنائی دیتی ہے۔ زیریں سندھ اور خاص طور پر پاک بھارت سرحدی اضلاع میرپورخاص،عمرکوٹ،سانگھڑ میں ان کے بارے میں کم ہی سنا گیا ہے
جبری مشقت اور نجی جیلیں کیا ہیں،کون ان میں مقید ہوتا ہے اور کون انہیں چلاتا ہے،اس کے بارے میں اندرون سندھ کے شہر وں اور دیہاتوں میں رہنے والےلوگ بخوبی واقف ہیں۔،جیل کا نام سنتے ہی بلند وبالاخاردارتاروں سے مزین دیواروں اور عمارتوں کا تصور آجاتاہے۔لیکن نجی جیل بلند وبالادیواروں اور وسیع وعریض بیرکوں پر مشتمل نہیں ہوتی ہے،بلکہ وقتا فوقتا بھٹہ مالکان اور زمینداروں پر یہ الزام لگایا جاتاہے کہ وہ اپنے مزدوروں اور ہاریوں کو ایک مخصوص علاقہ تک محدود رکھ کر ان سے معمولی اجرت پر جبری مشقت لیتے ہیں۔ان کے اس عمل اور اس علاقہ کو نجی جیل اور جبری مشقت کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے روزنامہ جنگ کی جانب سے کیےگئے سروے میں مختلف زمینداروں اور بھٹہ مالکان نے نجی جیلوں کی عملی موجودگی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔یہ بلیک میلنگ اور سندھ کی زراعت کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔بھٹہ مالکان کا کہنا ہے کہ بھٹہ مزدور پیشگی بھاری رقم بہ طور ایڈوانس لیتے ہیں اورقرض کی ادائیگی کے تقاضے پر بعض مخصوص عناصر کی جانب سے عدالتوں میں نجی جیل اور جبری مشقت کاشور مچا کربغیر قرض کی ادائیگی کےچلے جاتے ہیں۔
زمینداروں کا بھی یہی موقف ہے کہ زیادہ تر ہاری زمینداروں کے کمدار نہیں بلکہ فصلوں میں شراکت دار ہوتے ہیں،اور اکثرزمیندار کے مقروض ہوکر جب کسی دوسرے زمیندار کے پاس جاتے ہیں تو وہ زمیندار نہ صرف ان کا پورا قرضہ ادا کرتا ہے بلکہ مزید بھاری رقم بطور ایڈوانس دینے کے ساتھ ساتھ غمی وخوشی اور دیگر مواقع پر قرضہ بھی دیتا ہے۔
زمین کی تیاری سے لے کر فصلوں پرآنے والے تمام اخراجات بھی وہ خود برداشت کرتا ہے لیکن ہاری فصلوں کی پیداوار کی صورت میں نصف کا حقدار ہوتا ہے،اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچے تو پھر بھی زمیندار ہاریوں کو روزمرہ کے اخراجات کے لیے قرضہ دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہاریوں کے درمیان ہونے والے تمام معاملات کا مکمل دستاویزی ریکارڑ رکھا جاتا ہے،بعض لوگ ہاریوں کوورغلانے کے لیے خاصے سرگرم ہیںاور وہ ان سے مل کر قرضہ ہڑپ کرنے کے لیے پولیس اور عدالتوں میں نجی جیلوں کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔
یہ تو تھا،زمینداروں اور بھٹہ مالکان کا موقف،جبکہ نجی جیلوں کے حوالے سے مختلف سماجی تنظیموں اور ہاریوں کا کہنا ہے کہ تعلیم کی کمی اور حقوق سے ناواقفیت کی وجہ سے زمیندار ہاریوں کے حقوق پامال کررہے ہیں۔ ان کے مطابق زمیندار نہ ایمانداری سے ان کا حساب کتاب رکھتا ہے اور نہ ہی وقت پر انہیں انصاف کے مطابق منافع دیتا ہے،حتیٰ کہ ملک میں کسی بھی نوعیت کے انتخابات کے موقع پر ہاری خاندان اپنا حق رائے دہی بھی اپنی مرضی سے استعمال بھی نہیں کرسکتے ۔
انہیں زمیندار کی جانب سے علاج ومعالجہ،تعلیم،ورہائش کی بھی سہولت دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ان مظلوموں کی حیثیت ایک زرخرید غلام جیسی ہوتی ہے۔بعض زمیندار ہاریوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر جعلی حساب کتاب کے ذریعہ انہیں قرضہ میں جکڑلیتے ہیں اور رات دن محنت مشقت کرنے کے باوجود پیداوار کے منافع کا انتہائی کم حصہ دیتے ہیں۔
نجی جیلوں کے حوالے سے یہ تو تھی زمینداروں،بھٹہ مالکان،ہاریوں اور سماجی تنظیموں کی رائے۔لیکن غیر جانبدار مبصرین کی ایک الگ رائے ہے،ان کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں،ان کے مطابق زراعت سے وابستہ ان دونوں شراکت داروں کی زندگیوں پر نگاہ ڈالی جائے تو دونوں کے رہن سہن میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے۔
ایک شراکت دار یعنی زمیندار یا وڈیرے اور ان کے اہل خانہ پرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کے بچوں کواندرون و بیرون ملک کے مہنگے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں علاج اور تعلیم کی سہولتیں دستیاب ہیں۔ ہاری کی شکل میں دوسرا شراکت داربھوک وافلاس،غربت اور بے چارگی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ر اس کے بچے علاج و معالجہ،تعلیم ورہائش اور پینے کے صاف پانی کی سہولت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
سندھ سے نجی جیلوں کا تصور ختم کرنے کے لیے زمیندار اور ہاریوں اور بھٹہ مالکان و کارکنوں کے مابین تعلقات کا جائزہ لے کر ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہےاس حوالے سے1950میں نافذکیےگئے’’ ٹیننسی ایکٹ‘‘ میں نئے حالات کے مطابق اس طرح تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ زمیندار اور ہاری اس سے مطمئن ہوں اور دونوں کے حقوق اور مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔حکومت، زمینداروں اور بھٹہ مالکان کے تعاون سے ہاریوں اور بھٹہ مزدوروں کو علاج و معالجہ،تعلیم،بجلی پینے کے صاف پانی اور بہتر رہائشی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے۔