• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچے ہمیشہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں اور وہ ایسے دوستوں کو تلاش کرتے ہیں جو کھیل کا مقابلہ ڈٹ کرکر یں۔ والدین کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو گھر میں ان کے کھیلنے کے لیے صحن اورباغیچے بنوا دیں ۔بارش کے دنوں میں کمروں کے اندر کھیلنے کے سامان مہیا کیجئے ۔ تقریباًہر بچے کا الگ انداز ہوتا ہے ۔کچھ بچے اپنے والدین کو کام یاب دیکھ کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم اس بلندی پر تو اتنی آسانی سے نہیں پہنچ سکتے اور عیش پرست یا کاہل بن جاتے ہیں ۔پیار زدہ بچہ ہر ایک کی تو جہ کا مرکز بنارہے کا خواہش مند رہتا ہے ۔سب سے بڑا بچہ ظلم وتشدد اور ناجائز رعب ڈالنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔

چھوٹا بچہ زندگی کی دوڑ میں بڑے بھائی سے آگے نکل جانے کی کوشش میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سب سے چھوٹا بچہ ہر ایک کا منظور بننے کا خواہش مند رہتا ہے اکلوتا بچہ جس نے آج تک کسی حریف سے ٹکر نہیں کھائی ہوتی جوانی میں بھی حکمرانی اور قیادت کے سنہرے سپنے دیکھتا ہے۔ غرض یہ کہ پیدائشی عنصر آئندہ زندگی کے معاشرتی کردار پر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے،اگر خاندان کے سارے لوگ ہفتہ میں ایک بار کسی ایسے شغل یا کھیل میں شامل ہوا جائیں ،جس میں ہر ایک کی کچھ نہ کچھ دل چسپی ضرور ہو تو بچوں کو ایک دوسرے کے محدود معاشرتی فکر و عمل کی خامیوں سے واقف ہونے کے علاوہ گروہی کردار کے اپنانے کی تربیت بھی ہوجائے گی۔

اسکول کے بچوں کے کیمپ کلب اور ٹولیاں اس سلسلے میں بہت زیادہ مفید ثابت ہوتی ہیں، اسکاؤنٹنگ اور کھیلوں کے تنظیمی اداروں میں بچے دوسروں کو سمجھنے اور اپنے محسوسات کی ترجمانی کے معاشرتی انداز کا سلیقہ سیکھتے ہیں ساتھیوں کے ساتھ سیرو تفریح کے لیے باہر جانے اور گروپ کے ساتھ سیروتفریح کے لیے باہر جانے اور ساتھ کام کرنے اور کھیلنے کودنے سے بچوں کا معاشرتی شعور نکھرتا ہے ،تجربے اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھیل میں بھی تبدیلی آنے لگتی ہے۔ بچوں کی تفریحی دلچسپیوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں ۔

پیدائش کے بعد کچھ عرصے تک بچے صرف اپنے حواس سے کام لینا اور حرکت کرنا ہی سیکھتے ہیں اس عمر میں وہ تنہا کھیلنا پسند کرتے ہیںاور اپنے اردگرد کی نئی نئی چیزوں کو پکڑنے کی مشق کرتے ہیں ابتدا میں وہ یہ حرکتیں بے تکی ہوتی ہے رفتہ رفتہ بچے میں آگے بڑھنے کی قوت پیدا ہوتی ہے وہ چیزوں کی طرف لپکتا ہے انہیں اپنی طرف کھینچتا ہے ۔جب بچہ

چلنا شروع کرتا ہے تواس کی سبک دستی بہت بڑھ جاتی ہے ۔اس عمر میں بچہ عموماً متوازی کھیل ہی میں مصروف رہتا ہے یعنی وہ بچوں کے قریب تو کھیلتا ہے مگر ان میں شامل ہونے سے کتراتا ہے بچوں کے اوائل میں کچھ معاشرتی سلیقہ آجانے سے بچوں کو اکٹھے کھیلنے کی رغبت ہوتی ہے بچہ اب تنہا کھیلنے میں بے لطفی سی محسوس کرنے لگتا ہے چوتھے اور چھٹے سال کے درمیانی عرصہ میں بچوں کو کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے خود بخود حرکت کرنے والے کھلونے چھڑیاں دوربینیں اور چمکنے والی چیزیں اس عمر میں بچوں کے پسندیدہ کھلونے ہوتے ہیں اب درختوں پر چڑھنے اور جانوروں کے پیچھے بھاگنے میں ان کو بہت لطف آتا ہے۔ایک عمر ایسی آتی ہے جب بچے کوکرکٹ ،ہاکی اور فٹ بال کے علاوہ موٹر سائیکل چلانے کا شوق پیدا ہوجاتاہے ۔بچوں کی معاشرتی اور جذباتی تر بیت میں کھیل بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

تازہ ترین