پشاور کو جنوبی ایشیاء کے چند سب سے پرانے شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے، اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 7ہزار سال قبل کی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔
وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور کی کئی امتیازی شناخت ہیں، جن میں سے چند کا ذکر کیا جارہا ہے۔
مسجد مہابت خان
1670ء میں کابل کے گورنر مہابت خان نے شاہی مسجد لاہور کی طرز پر ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی تھی، جو انہی کے نام سے منسوب ہے۔مسجد کا صحن 35میٹر لمبا اور تقریباً 30میٹر چوڑا ہے، جس کے درمیان میں ایک بہت بڑا حوض موجود ہے۔
مسجد کی دیواروں اور گنبد کو کاشی کاری اور نقش و نگار سے اس طرح سجایا گیا ہے کہ زمین پر فردوسِ بریں کا گمان ہوتا ہے۔ 34میٹر بلند و بالا میناروں کے درمیان 6چھوٹے چھوٹے مینار بھی بنائے گئے ہیں۔ چھت پر کل7گنبد تعمیر کیے گئے ہیں، جن میں3گنبد کافی بڑے ہیں۔
اسلامیہ کالج پشاور
اسلامیہ کالج پشاور کے مسحور کن طرزِ تعمیر کو ملاحظہ کریں تو اس کی عمارت جنوبی ایشیا میں مسلم تہذیب کا بہترین مجسمہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کی تعمیر کا سہرا سرصاحبزادہ عبد القیوم کو جاتا ہے۔ انھوں نے1913ء میں اسلامیہ کالج پشاور کی بنیاد رکھی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے 1936ء،1945ء اور1948ء میں اس کالج کا دورہ کیا۔ 300ایکڑ اراضی پر پھیلے اس کالج کی خوبصورت عمارت پشاور کے عظیم علمی ورثے کی شاہد ہے۔ چاروں اطراف سبزے کی چادر میں گھرا طرزِ تعمیرنفاست اور تعمیراتی حسن کا شاہکار نظر آتا ہے۔
پشاور یونیورسٹی
پشاور یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ پاکستان کی قدیم ترین جامعہ ہے، جس کی بنیاد 1950ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ انڈرگریجویٹ ، پوسٹ گریجویٹ ، اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لئے مختلف پروگرام پیش کرتی ہے۔ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹس کی کل تعدادچودہ اور تحقیقی مراکز کی تعدادآٹھ ہے۔
اپنی اعلیٰ معیارِ تعلیم کے حوالے سے پشاور یونیورسٹی نے دنیا بھر میں امتیازی شناخت حاصل کی ہے۔1,045ایکڑ (4مربع کلومیٹر)رقبے پر پھیلی اس عوامی یونیورسٹی کی سرخ اینٹوں اور محرابی طرزتعمیر پر مبنی منفرد اور دیدہ زیب عمارت فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے۔
قلعہ بالاحصار
لفظ بالا حصار فارسی سے ماخوذ ہے،جس کا مطلب ’’بلند حصار بند قلعہ‘‘ ہے۔ یہ تاریخی قلعہ پشاور شہر کے شمال مغربی کونے میں ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے۔ یہ قلعہ نمایاں طور پر پرانے شہر پشاور سے دور تھا، اب پرانے شہر اور قلعے کے درمیان نئی عمارتوں کے ساتھ ہی احاطہ بن گیا ہے۔
تاہم اونچے ٹیلے پر قلعے کی حیثیت پشاور میں سب سے نمایاں ہے، جوپورے شہر کا دلکش نظارہ پیش کرتی ہے۔ بالاحصار قلعہ تقریباً 10ایکڑ رقبے پر محیط ہے اور اس کی اونچائی زمینی سطح سے 90فٹ بلندی پر ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے۔
درۂ خیبر/باب خیبر
جمرود کے مقام پر درہ خیبر کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے شاہراہ پر ایک خوبصورت محرابی دروازہ بنایا گیا ہے جسے ’’باب خیبر‘‘ کہتے ہیں۔ باب خیبر کا دروازہ جون1963ء میں بنایا گیا۔ باب خیبر پر مختلف تختیاں بھی نصب ہیں، جن پر اس درہ سے گزرنے والے حکمرانوں اور حملہ آوروں کے نام درج ہیں۔ درۂ خیبر/ بابِ خیبر افغانستان اور پاکستان کے مابین شمال مشرق رُخ پر اہم ترین راستہ ہے، جو کابل کو پشاور سے جوڑتا ہے۔ یہ تاریخی طور پر شمال مغرب سے برصغیر پاک و ہند میں تجارت کادروازہ رہا ہے۔
چوہا گجر / مغل پل
پشاور کے نواحی علاقے چمکنی میں دریائے باڑہ پر تعمیر چارسو سالہ پرانا تاریخی پل مغلیہ فن تعمیر کا شاہکار ہے اوراب بھی آمد ورفت کیلئے کارآمد ہے۔ اس پلکی تعمیر چارسو برس قبل مغل حکمران شاہ جہاں کے دور میں ہوئی۔12محرابوں اور10میناروں پر مشتمل اس پل کی لمبائی 29فٹ اور چوڑائی35فٹ ہے۔ پل کی تعمیر میں وزیری اینٹ،کچ،پٹ سن اورچونا استعمال کیا گیا۔ پل کا ڈھانچہ اب بھی سلامت ہے تاہم مینار اور پشتے کچھ خستگی کا شکار ہیں۔
پشاور عجائب گھر
پشاور کا عجائب گھر 1906ء میں برطانوی ملکہ وکٹوریا کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت اسے وکٹوریا میموریل ہال کا نام دیا گیا لیکن تقسیم ہند کے بعد اسے پشاور میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں گندھارا تہذیب سے جڑے چار ہزار سے زائد مختلف نوادرات رکھے گئے ہیں۔
اس عجائب گھر کو دنیا میں گندھارا تہذیب کے نوادرات کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے، جس میں بدھا کے کئی قدیم مجسمے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر تہذیبوں کے آثار قدیمہ بھی موجود ہیں۔