اسلام آباد (نمائندہ جنگ/ٹی وی رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس نے ہمیں جھنجھوڑ دیا، سقوط ڈھاکا سے سبق ملتا ہے کہ ریاست اور شہریوں میں سوشل کنٹریکٹ کمزور تھا، ریاست نے شہریوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا تھا۔
ریاست حقوق نہ دے تو عوام سوشل کنٹریکٹ چھوڑ دیتے ہیں، تحریک پاکستان مشرقی پاکستان سے شروع ہوئی، مشرقی بنگال والے ہم سے زیادہ پُرعزم تھے، آئین اور قانون کی حکمرانی شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے، سیاسی سفارش کرنے والے کا معاملہ نیب کو بھیج دینا چاہیے۔
گزشتہ روزپولیس ریفارمز کمیٹی کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ 16 دسمبر کی تاریخ دو سانحات کی یاد دلاتی ہے، ایک سانحہ سقوط ڈھاکا اور دوسرا سانحہ اے پی ایس۔
قیام پاکستان کی تحریک مشرقی بنگال سے شروع ہوئی، مشرقی بنگال والے ہم سے زیادہ پرُعزم تھے، ہمیں سقوط ڈھاکا سے سبق ملتا ہے کہ ریاست اور شہریوں میں سوشل کنٹریکٹ کمزور ہو تو لوگ اس سوشل کنٹریکٹ کو توڑ دیتے ہیں، ریاست کو عوام کے حقوق کا ہر صورت خیال رکھنا پڑتا ہے، آرمی پلک اسکول سانحے نے ہمیں جھنجھوڑ دیا، اے پی ایس کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، پلان میں کرمنل جسٹس سسٹم کی اصلاحات شامل تھیں۔
پوری قوم نے نیشنل ایکشن پلان کو اپنا کر ثابت کیا کہ ہم ایک ایجنڈے پر اکھٹے ہوں تو بہترین کام کر سکتے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے۔ پولیس لوگوں کے لیے آقا نہیں اس کا کام شہریوں کا تحفظ ہے، لیکن بدقسمتی سے تاثر قائم رہا کہ پولیس تحفظ کی بجائے بنیادی حقوق سلب کرتی ہے۔
پولیس ریفارمز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پولیس میں حکومتی سطح پر کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔