• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی سپریم کورٹ کا متنازع شہریت قانون کا نفاذ روکنے سے انکار

بھارتی سپریم کورٹ نے شہریت کے متنازع قانون کا نفاذ فوری طور پر روکنے سے انکار کردیا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے 60 سے زائد درخواستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت سے جواب طلب کرلیا ہے، اگلی سماعت 22 دسمبر کو ہوگی۔

درخواست گزاروں کا موقف ہےکہ مذہب کو شہریت کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا، نیا قانون سیکیولر بھارت کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزاروں نے شہریت سے متعلق ہندو انتہا پسند حکمرانوں کے نئے قانون کو غیر قانونی دینے اور فوری نفاذ کو روکنے کا مطالبہ کیا۔

متنازع شہریت قانون کے خلاف اپوزیشن جماعت کانگریس اور آسام میں بی جے پی کی اتحادی پارٹی سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کی ہیں۔

مذکورہ قانون کے خلاف 60 درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا اور کہا کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنا مؤقف پیش کرے۔

بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج جاری ہے، جس میں اب تک کئی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں۔

نئی دہلی ان احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا ہوا ہے، جہاں شہریوں کو مظاہروں سے باز رکھنے کیلئے شمال مشرقی علاقے میں دفعہ 144 نافذ کرکے سڑکوں پر پولیس کا گشت بڑھادیا گیا ہے۔

مختلف تنظیموں نے جمعرات کو ملک گیر احتجاج کا اعلان بھی کر رکھا ہے، نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پولیس کی غنڈہ گردی بھی جاری ہے، رہائشی عمارت پر براہ راست فائرنگ اور پتھراؤ کی ویڈیو سامنے آ گئی ہے۔

انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے غنڈہ عناصر احتجاج میں شرکت کرنے والے مسلمان طالب علم کو ڈراتے دھمکاتے نظر آئے، جامعہ ملیہ کے زخمی طالب علم کا کہنا ہے کہ پولیس نے کلمہ پڑھنے کا کہا جیسے ہمیں وہ جان سے ہی ماردے گی۔

متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دیدی تھی۔

متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔

تازہ ترین