• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مشرف کو 5 بار پھانسی، تفصیلی فیصلہ، مرجائے تو لاش 3 دن ڈی چوک پر لٹکائیں، جسٹس وقار، اس کی قانون میں گنجائش نہیں، جسٹس شاہد، استغاثہ جرم ثابت نہیں کرسکا، جسٹس نذر

خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا


اسلام آباد (عاصم جاوید‘جنگ نیوز)اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر سنگین غداری کا الزام ثابت نہیں کر سکا‘جسٹس وقار سیٹھ نے فیصلے میں لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو لاش ڈی چوک لاکر تین دن تک لٹکائی جائے جبکہ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس نقطے سے اختلاف کیا اور کہا کہ اس مثالی سزاکی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپیل سے پہلے سابق صدرکو گرفتاری دینا ہوگی‘ ایمرجنسی اور آئین معطل کرنے کے الفاظ سے مارشل لاء کے اثرات کم نہیں ہوتے‘ اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا‘ 1999ء میں فوج کی اعلیٰ کمانڈ کے ہر فرد نے پرویز مشرف کی مدد کرکے یا خاموش رہ کر اپنے حلف سے روگردانی کی ہے۔

عدالت نے پرویز مشرف کو ملک سے فرار کرانے والوں کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا ہے۔ خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے دو، ایک کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیاہے۔ 


جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ سنایا جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر نے کہا ہے کہ استغاثہ جنرل (ر) پرویز مشرف پر سنگین غداری کا الزام ثابت نہیں کر سکا۔ 

تفصیلی فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے ، دو ججز کا فیصلہ 68 صفحات جبکہ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی فیصلہ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں جسٹس شاہد کریم کا 57 صفحات کا نوٹ بھی شامل ہے جس میں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سمیت دیگر ممالک کی نظائر پیش کی گئی ہیں۔ 

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف ایکٹ 1973ءکے تحت سنگین غداری کے مرتکب قرار پائے ہیں، انہوں نے بطور آرمی چیف نومبر 2007ء میں آئین میں غیر قانونی ترمیم کی، غیر قانونی پی سی او جاری کیا، ایمرجنسی پلس لگائی اور ججز کو نظر بند کیا جبکہ اختلافی نوٹ میں جسٹس نذر اکبر نے کہا ہے کہ استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ 

تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ اگر حالات مناسب نہیں تھے تو پرویز مشرف کے پاس ججز کے احتساب سمیت دیگر قانونی آپشنز موجود تھے اس لئے پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے اقدامات غیر قانونی ہیں۔ 

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ1999ءمیں فوج کی اعلیٰ کمانڈ کے ہر فرد نے پرویز مشرف کی مدد کرکے یا خاموش رہ کر اپنے حلف سے روگردانی کی ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مجرم پھانسی سے قبل فوت ہو جائے تو اس کی لاش کو تین روز تک ڈی چوک میں لٹکایا جائے۔ 

عدالت نے کہا ہے کہ فیصلہ مجرم کی غیر موجودگی میں سنایا گیا ہے ، اگر مجرم سزا سے پہلے فوت ہو گیا تو سوال پیدا ہو گا کہ اسے سزا نہیں ملی۔ خصوصی عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے مثالی سزا سے متعلق پیرا گراف سے اختلاف کیا اور کہا مثالی سزا کی قانون میں گنجائش نہیں ہے ، یہ غیر آئینی ہوگی۔ 

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نظریہ ضرورت کے باعث باوردی فوجی افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کویہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا گیا۔

تازہ ترین