سابق آرمی چیف و صدر مملکت جنرل ( ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے سے پورے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں بیان بازی بھی جاری ہے اور اس کے مضمرات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے تو اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ 17 دسمبر اب ہماری تاریخ کا ایک سنہرا باب بن چکا ہے جب آئین کو معطل کرنے کے خلاف ایک بڑا فیصلہ آیا جو مستقبل میں آئین کی بالادستی کی بنیاد بن جائے گا۔ ادھر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اس فیصلے میں شامل پیرا گراف نمبر 66 کی وجہ سے اسے غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر انسانی قرار دے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت تو اس فیصلے پر خاموش ہے۔
تاہم مقامی سطح کے رہنما اس کا کریڈٹ نواز شریف کو دیتے ہیں کہ انہوں نے آئین کی بالادستی کے لئے آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف یہ ریفرنس کیا جس میںبالآخر ایک آمر کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی کھل کر اس فیصلے کے حوالے سے اپنے مؤقف کا اظہار نہیں کررہی تاہم بلاول بھٹو زرداری نے ابتدا میں اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے کیسوں کے بھی جلد فیصلے ہونے چاہئیں تاہم کسی نے بھی پیرا گراف نمبر66 کی حمایت نہیں کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے تو یہ تک کہہ دیا کہ یہ پیراگراف ایک جج کی رائے ہے اور فیصلے کا آپریشنل حصہ نہیں ہے اس لئے اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اس فیصلے کے تیسرے دن ملتان میں جنرل(ر) پرویز مشرف کے حق میں بڑے بڑے پینا فلیکس لگا دیئے گئے جن کے نیچے کچھ نہیں لکھا تھا کہ یہ کس کی طرف سے لگائے گئے ہیں تاہم ان بینرز پر لکھا گیا تھا کہ کوئی چیف آف آرمی سٹاف غدار نہیں ہوسکتا اور پاکستان کے لئے تین جنگیں لڑنے والا محب وطن ہے اسے غدار کہنا ملک کی خاطر جانیں دینے والوں کی توہین ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بینرز کینٹ کے علاقے میں مختلف پلازوں اور سڑکوں پر لگائے گئے۔ اس کے بعد پرویز مشرف کی حمایت میں مظاہرے بھی ہوئے اور ایسی فضا بن گئی کہ جیسے پرویز مشرف کی سزا کا معاملہ عوامی اہمیت کا حامل ہے اور انہیں سزا دے کر گویا عوام کے جذبات کی توہین کی گئی ہے۔ ادھر وکلا کی رائے یہ ہے کہ اس فیصلے کو قانونی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
چونکہ ابھی اپیل کی مراحل پڑے ہیں اگر یہ فیصلہ غیرآئینی اور غیر قانونی ہے تو پرویز مشرف کو با آسانی ریلیف مل جائے گا لیکن اس کی بنیاد پر کسی عدالتی فیصلے کے خلاف مہم چلانا اور جج کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس بھیجنا غیر روایتی عمل ہے جو عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔
اس فیصلے نے تحریک انصاف کے لئے خاصی مشکلات کھڑی کردی ہیں کیونکہ جس طرح تحریک انصاف کی طرف سے با جماعت اس فیصلے کے خلاف رد عمل سامنے آیا اس نے سب کو حیران کردیا۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز کی بھرمار ہوگئیں جن میں عمران خان پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی پر مقدمہ چلانے کے حامی نظر آئے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو اس مقدمے کو انجام تک پہنچائیں گے۔ اب جبکہ یہ مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا ہے اور اس میں پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی ہے تو تحریک انصاف سب سے زیادہ اس فیصلے کے خلاف متحرک نظر آتی ہے۔
حالانکہ تکنیکی طور پر اس مقدمے میں بطور مدعی حکومت کامیاب ہوئی ہے اور یہ اس کے لئے اطمینان بخش بات ہونی چاہیے مگر اس کے رد عمل سے یوں لگ رہا ہے کہ فیصلہ حکومت کے خلاف آیا ہے ۔ کیا یہ کسی دبائو کا نتیجہ ہے ؟ یا حکومت واقعی ہی یہ سمجھتی ہے کہ مقدمہ صحیح نہیں بنایا گیا اور مشرف کے ساتھ دیگر افراد کو بھی اس مقدمے میں شامل کیا جانا چاہیے تھا ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ عمران خان بیرون ملک جاکر بھی مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کی بات کرتے تھے اب اچانک انہوں نے یہ یوٹرن کیوں لیا ہے ؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف ایک علامتی فیصلہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ کوئی مائی کا لعل پرویز مشرف کو تختہ دار پر نہیں لٹکا سکتا ۔
جہاں تک سیاسی فائدے کی بات ہے تو تحریک انصاف ابھی تک نئے صوبے کے حوالے سے عجیب مخمصے میں پھنسی ہوئی ہے ۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تین روزہ دورے پر ڈیرہ غازی خان آئے تو انہوں نے تقریباً 18 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا ۔ گویا جو بجٹ شاید جنوبی پنجاب کے لئے مختص تھا وہ اپنے آبائی علاقے میں خرچ کردیا تاہم ایک اچھا منصوبہ یہ رہا ہے کہ مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان روڈ کو دو رویہ کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ اس سڑک پر حادثات کی شرح بہت زیادہ تھی کیونکہ ٹریفک کے بہائو کے لئے سنگل سڑک ناکافی تھی اوراکثر ملحقہ علاقوں کی سڑکوں سے آنے والی تیز رفتار ٹریفک کا شکار ہوجاتے ۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ تھا جو کئی دہائیوں سے چلا آرہا تھا اب وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچنے کی توقع پیدا ہوگئی ہے۔
ان کے دورے کے دوران جب صحافیوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے بنانے کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ صوبے کا منصوبہ فائنل ہے تاہم صوبائی صدر مقام کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہورہا ۔ ادھر اسی دن جہانگیر ترین نے لودھراں میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہی بات کی جس پر یہاں کے حلقے حیران ہیں کہ آخر جنوبی پنجاب کے صدر مقام تعین کرنے میں اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں ہورہی۔
یہ صرف اس معاملے کو تعطل میں ڈالنے کا ایک حربہ ہے کیونکہ پنجاب حکومت کے وزیر اطلاعات بڑے واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ سرائیکی صوبہ ممکن نہیں ہے ، ان کے اس بیان کی کسی سطح پر تردید نہیں کی گئی البتہ یہاں آکر تحریک انصاف کے رہنما شاید عوام کو طفل تسلی دینے کے لئے علیحدہ صوبہ و سیکرٹریٹ کی بات کرتے رہتے ہیں ۔