• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکانوں کی چھتوں سے صرف دو تین فٹ نیچے تک پانی ٹھاٹیں مار رہا تھا

شکور پٹھان

لیکن اس سے پہلے بہار کالونی کی ایک دو باتیں اور سن لیں۔ میں نے ابھی اپنے سامنے رہنے والے لڈن کے گھر والوں کا ذکر کیا۔ دراصل بہار کالونی میں ایسے بھانت بھانت کے لوگ رہتے تھے کہ جیسے کراچی کو منی پاکستان کہتے ہیں، اسی طرح بہار کالونی چھوٹا کراچی تھا، صرف ہماری گلی میں سب سے پہلے میمنوں کا گھر تھا، جن کے پڑوس میں ایک کچھی خاندان، ان کے برابر میں میری عاصمہ ماسی جو بوہری تھیں ، ان کے پڑوسی لڈن کے گھر والے امروہے کے سادات ان کے ساتھ گلی کا آخری گھر جو گول کمرے والوں کا گھر کہلاتا تھا ،جس کی نچلے حصے میں حیدرآبادی اور اوپری منزل میں ایک بہاری خاندان رہتا تھا، اسی مکان کے ساتھ کچھ دکانیں تھیں جس میں بہادر نامی لانڈری والا پٹھان تھا۔ دائیں سرے پر میمنوں کے سامنے ایک پنجابی جوڑا رہتا تھا ان ہی میمنوں کے بائیں جانب والا گھر عیسائیوں کا تھا جن کے لڑکوں نکی، کوڈی اور گاما کے ساتھ میری دوستی تھی۔

ہمارا گھر اوپری منزل پر تھا نیچے پہلے ایک میمن خاندان اوربعد میں ایک پنجابی خاندان کرایہ دار تھا۔ مکان مالک کا بتا چکا ہوں کہ کانپوری تھے۔ ان کے ایک کرایہ دار جن کا گھر سب سے آخر میں تھا وہ شاید مدراسی تھے۔ ہمارے بائیں جانب بھی ایک گوانی عیسائی خاندان رہتا تھا۔ ان کا نوجوان لڑکا وکٹرمیرے بڑے چچا کے ساتھ کسٹمز میں کام کرتا تھا۔ 

وکٹر کے گھر سے کرسمس اور ایسٹر کے دنوں میں یسوع مسیح اور کنواری مریم کی مناجات گائی جاتی جس کی آواز ہمارے گھر تک آتی، عید بقر عید اور محرم وغیرہ پر ہمارے گھر سے وکٹر کے ہاں شیرخرمہ، سویّاں اور کھچڑا وغیرہ جاتے اور جواباً وہاں سے کرسمس کیک اور مٹھائیاں آتیں۔ ہمارے گھر والے کٹّر مذہبی تھے اور ان کا خیال تھا کہ کیک میں رم یعنی شراب ملی ہوتی ہے ۔ ہم وہ کیک وصول کرلیتے اور خاموشی سے کسی مہتر یا خاکروب کو دے دیتے جو کہ مسیحی ہوتے۔

اسی بہار کالونی میں چند گلیاں چھوڑ کر کچھ محلے بوہریوں اور اسمٰعلیوں کے تھے اور ان کی کریانہ کی دکانیں تھیں۔ ہم گندم پسوانے مسان روڈ جاتے تو راستے میں کچھ مکان ہندوؤں کے تھے اور ایک نسبتاً بڑے مکان میں مندر تھا ،جس کے باہر ہندو عورتیں رنگ برنگی ساڑھیوں میں اور ماتھے پر بندیا سجائے ہوئے نظر آتیں۔ یہ شاید کچھی یا گجراتی بولتی تھیں۔

ٹینری روڈ پر گیارہ نمبر کے آخری بس اسٹاپ سے کچھ آگے کوئلہ گودام تھا اور اسی سے متصل ایک ہوٹل تھا، جس کے باہر ایک پان کا کھوکھا تھا، جہاں ہوٹل کے مالک کا بیٹا جان محمد عرف جانو بیٹھا ہوتا۔ میرے ابا پان اسی سے لیتے۔ ابا بلوچی بول لیتے تھے اور جانو ان کا خاص خیال رکھتا۔ میں نے گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا تو جانو بھی میری ہی جماعت میں تھا حالانکہ وہ مجھ سے دوچار سال بڑا تھا۔ جانو میرا خاص خیال رکھتا اور اس کی وجہ سے لڑکے مجھ سے لڑنے جھگڑنے کی ہمت نہ کرتے۔

بچپن میں فاصلے شاید کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے گھر سے اسکول کا فاصلہ کتنا تھا۔ میں دوبارہ اس علاقے میں نہ جاسکا لیکن میرا خیال ہے کہ کم ازکم ایک میل کا فاصلہ ضرور تھا کہ ہم اپنی دو گلیوں کے بعد کچی سڑک پر آتے اور کافی چلنے کے بعد پکی سڑک یعنی ٹینری روڈ آتی، جس پر بسیں، ٹرک، پھٹپھٹی ( اس زمانے کی آٹو رکشا یا چنچی) اونٹ گاڑیاں، تانگے اور گدھا گاڑیاں چلتی تھیں اور ہمارا اسکول سڑک کی دوسری جانب تھا۔ اور ذرا سوچئے چھ سال کے بچے گھر سے ایک میل دور ایک مصروف سڑک کو پار کرتے۔ آج کل نہ تو ماں باپ بچوں کو اتنی دور پیدل بھیج سکتے ہیں نہ اتنے سے بچوں کو سڑک پار کرنا آتی ہے۔

اور ہمیں بھی کون سا سڑک پر چلنا آتا تھا۔ ایک دن صبح اسکول جاتے ہوئے دوستوں کے ساتھ اچھلتا کودتا اور امی کے ہاتھ کا سلا ہوا بستہ ہوا میں اچھالتا چلا جارہا تھا کہ سر پر سے قیامت گذر گئی۔ یہ ایک گدھا گاڑی کا پہئیہ تھا جو میرے پورے جسم پر سے گذر گیا۔ میرا سر پکی سڑک سے ٹکرایا اور میرے چھ سالہ جسم پر سے گدھا گاڑی کا پورا بوجھ گذر گیا۔ جب ہوش آیا تو میرا سر اور پورا چہرہ اور سارے کپڑے خونم خون تھے۔ پتہ نہیں کون تھا جو مجھے اپنے کندھے پر ڈال کر کوئلہ گودام کے دفتر لے گیا ۔ 

ابا نے مجھے دیکھا تو اس شخص سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور اسے کیا ہوگیا ہے۔ مجھے اب بھی وہ الفاظ یاد ہیں ۔ اس شخص نے کہا “ اڑے راجہ صاحب یہ آپ کا بیٹا ہے” ۔ میرے چہرے پر سوائے خون کے کچھ نہیں تھا۔ ابا مجھے فورا قریب کے “ بنگالی، بہاری ڈاکٹر “ کےاسپتال لے گئے ،جنہوں نے میرا خون روک کر اور چہرے سے خون وغیرہ صاف کرکے کہا کہ اسے سول ہسپتال لے جاؤ یہ ایکسیڈنٹ کا کیس ہے وہی دیکھ سکتے ہیں۔ 

میرا ناک اور منہ سے بہتا خون بند ہوچکا تھا۔ ابا مجھے لے کر پہلے گھر آئے، جہاں گھر والے رونے پیٹنے لگے۔ ابا نے ڈانٹا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے لیکن مرہم پٹی کے لیے سول ہسپتال جانا ہوگا۔ میں امی اور ابا کی ساتھ پہلی بار پھٹپھٹی میں سول اسپتال گیا۔

آپ شاید یقین نہ کریں ، اس وقت کا سول اسپتال بہت ہی صاف ستھرا تھا۔ مجھے حادثات کے شعبے میں لے گئے، جہاں مرہم پٹی کے بعد ایک لمبا چوڑا انجیکشن نجانے کس چیز کا دیا گیا۔

اسپتال سے باہر آکر ابا نے مجھے “ گڑیا کے بال” لے کر دیئے اور میں خوش باش گھر آگیا۔ دراصل بہار کالونی سے باہر کا ہر علاقہ ہمیں بہت اچھا لگتا کہ پکے اور کثیر المنزلہ مکانات ، سڑکیں، گاڑیاں وغیرہ وہ چیزیں تھیں جن کا ہم بہار کالونی میں تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ مجھے تو لی مارکیٹ بھی لندن جیسا لگتا۔یہاں بعد میں بہت آنا جانا رہا۔ لیکن اصل طوفان آنا ابھی باقی تھا۔

اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ یہ سر دیوں کے دن تھے یا گرمیوں کے۔ اتنا یاد ہے کہ بڑی طوفانی بارشیں ہورہی تھیں اور ایک دن منہ اندھیرے آنکھ کھلی تو اذانوں کی آوازیں آرہی تھیں لیکن یہ مسجد کی اذان نہیں تھی۔ ان میں سے ایک آواز میرے ابا کی بھی تھی۔ گھر والے سب اٹھ چکے تھے اور حیران و پریشان کھڑکی سے نیچے جھانک رہے تھے ۔ میں بھی کھڑکی کے پاس آکھڑا ہوا اور ایک ناقابل یقین منظر نظر آیا۔ 

نیچے والے کرائے دار کے صحن میں چھت تک پانی بھرا ہوا تھا اور چارپائی اور برتن اور کرسی تیر رہے تھے، یہی نقشہ آس پاس کے گھروں میں تھا۔ امی نے کچھ کہا اور ابا اور چچا نیچے چلے گئے۔ ذرا ہی دیر میں دیکھا ابا اور چچا کے کاندھوں پر بچے ہیں ساتھ ہی مکان مالک، ہمارے نیچے والے کرایہ دار، افتخار صاحب والے کرایہ دار چھوٹے بچوں کو کندھوں پر لیے اوپر چلے آرہے ہیں ساتھ ہی چچی، پاپا، وغیرہ ہیں۔ نابینا دادی کو شاید افتخار چچا نے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔

پتہ چلا کہ لیاری ندی کا بندھ ٹوٹ گیا ہے اور بہار کالونی میں سیلاب آگیا ہے۔یہ شاید سن ساٹھ یا اکسٹھ کا واقعہ ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس کی تفصیل کہیں سے مل سکے۔ اب اس وقت کا کوئی ہم عمر بھی نہیں جس سے کچھ پوچھ سکیں۔

ہمارے گھر میں صرف ایک کمرہ اور ایک برآمدہ اور صحن تھا جو عورتوں اور بچوں سے بھر گیا تھے۔ مرد اور لڑکے گھر سے متصل “ چھت “ پر چلے گئے تھے۔ وہ ویسے ہی ہماری ہی کیا سب کی عسرت کے دن تھے۔ نیچے کے رہائشی تھوڑا بہت آٹا اور اچار وغیرہ لے آئے تھے۔ ان دنوں کون سے ریفریجریٹر وغیرہ تھے۔ نعمت خانے ہوا کرتے تھے لیکن اتنی صبح تو دودھ والے بھی نہیں آتے جو کہیں اپنی جان بچانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے۔ ہمارے گھر میں تھؤڑے سے گول ، پاپے، تھے۔ بغیر دودھ کی اور گڑ والی چائے اور آدھے آدھے پاپے بچوں کو دے کر چپ کرایا گیا۔ خواتین باآواز بلند آیت کریمہ اور کلمہ شریف کا ورد کررہی تھیں۔ کوئی کسی کونے میں سجدے میں پڑی ہوئی تھی۔

میں چھت پر آگیا، جہاں یہاں سے وہاں مرد منڈیر پر جھکے نیچے جھانک رہے تھے۔ کوئی صاحب اذان دے رہے تھے۔ میں نے گلی میں جھانکا ۔ تمام مکانوں کی چھتوں سے صرف دو تین فٹ نیچے تک پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ آہستہ آہستہ روشنی بڑھتی جارہی تھی اور پانی میں جانور بہتے نظر آرہے تھے۔ اور ایک چیز جو پورے بہار کالونی میں پھیلی ہوئی تھی وہ کوئلہ گودام کا کوئلہ تھا جو گلیوں میں پانی میں چکراتا پھر رہا تھا کہ تنگ گلیاں تھیں اور پانی ان ہی میں گھوم پھر رہا تھا۔

ہمارا گھر اور چھت کسی امدادی کیمپ کا منظر پیش کررہے تھے۔ آہستہ آہستہ دن چڑھنے لگا۔ کبھی بارش ہوتی تو کبھی بوندا باندی۔ دن چڑھے بارش رک گئی اور سورج نکل آیا۔ مجھے اس صورتحال میں بہت مزہ آرہا تھا، چھت پر اب لوگوں نے چارپائیاں کھڑی کرکے ان پر چادریں تان دی تھیں اور ایک پکنک کا سا منظر لگ رہا تھا۔

دوپہر تک پانی کا زور ٹوٹنے لگا۔ لوگ گھروں سے باہر آکر اپنے گھروں کی چارپائیاں ، برتن وغیرہ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے تھے۔ اچانک دیکھا کہ کچی سڑک کی جانب سے “ ابو چاچا” چلے آہے ہیں ، کندھے پر ان کی بوڑھی ماں ہیں۔ ابو چاچا بھی ہمارے ہاں آگئے۔ جب ذرا ہوش ٹھکانے لگے تو چچا اور ابو چچا کسی سواری کی تلاش میں نکلے اور پتہ نہیں کہاں سے ایک گدھا گاڑی ڈھونڈ لائے۔ باقی لوگ بھی اپنے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی کے لیے ہاتھ پیر مار رہے تھے۔ 

کسی کے کاندھوں پر بوڑھے ماں باپ ، تو کسی کے سر پر بچے تو کوئی سامان کی گٹھڑی اٹھائے چلا جارہا ہے۔ ابو چاچا اور چچا نے پہلے ہماری دادی اور ابو چاچا کی ماں کو پھر میری امی اور ہم بہن بھائیوں کو پکی سڑک تک لے گئے جہاں گدھا گاڑی کھڑی تھی۔ میں ابو چچا کے کاندھوں پر سوار مزے لیتا چلا جارہا تھا۔ سب جیسے تیسے گدھا گاڑی پر سوار ہوئے۔ مرد کبھی پیدل چلتے اور کبھی سوار ہوجاتے۔ ہم شہید ملت روڈ اور حیدر علی روڈ پر واقع کوکن سوسائٹی جارہے تھے۔

شہر میں کسی جگہ گدھا گاڑی نے ہمیں اتار دیا۔ چاکیواڑہ لیمارکیٹ وغیرہ سے آگے سیلاب کا کوئی اثر نہیں تھا، بہار کالونی نشیب میں تھا وہاں سیلاب کا زیادہ اثر ہوا تھا، شہر میں ہم نے سائیکل رکشہ لیے ۔ مجھے نہیں یاد کہ کتنے تھے۔ میں امی اور دادی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ شام کے جھٹپٹے میں ہم کوکن سوسائٹی پہنچے۔ ابو چاچا اور دادی شرف آباد میں چاچا کی بہن کے ہاں چلے گئے ہم سب پھوپھی کے ہاں آگئے۔

پھوپھی کا مشترکہ خاندان تھا جہاں پھوپھا اپنے دوبچوں کے علاوہ اپنے امی ابا، دوبڑے بھائیوں جن کے بالترتیب پانچ اور دو بچے تھے اور ان کا ایک بھتیجا بھی ساتھ رہتا تھا۔اب اس بھرے پرے گھر میں ہم آٹھ پناہ گزین بھی آگئے۔ وہ دن بھی عجیب تھے، لوگو ں کے گھر چھوٹے لیکن دل بڑے ہوتے تھے۔پھوپھا اور ان کے گھروالوں نے آگے بڑھ کر ہاتھ پھیلا دئیے۔

پھر کیا ہوا۔۔یہ اگلی قسط میں

تازہ ترین