ڈراما انڈسٹری میں اپنی اداکاری کا سکہ جمانے والی پاکستان کی نامور اداکارہ ’’صباحت بخاری‘‘ نے پی ٹی وی سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سپر اسٹار بن گئیں۔ آج کل ہر دوسرے سیریل میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ انہوں نے جہاں ماں کے دِل چھولینے والے کردار بھی کئے وہیں منفی کردار بھی کیے۔
موسیقی کی شوقین حباحت نے گٹار اور پیانو بجانا صرف اس لیے چھوڑ دیا کیونکہ اس میں ناخنوں کی قربانی دینا پڑتی تھی۔ اداکارہ بننے کے لیے ٹیچنگ، ٹیوشنز ، ایئر ہوسٹس ، ایکٹنگ ، نیوز اینکر ، انائونسر اور مارننگ شوز کی میزبانی سے لے کر پروڈکشن تک میں قسمت آزمائی۔ اُنہوں نے ’’جیو ٹی وی ‘‘ کے کئی اہم سیریلز میں بھی اپنی یاد گار اداکاری کے نقش چھوڑے ہیں جن میں ’’ماسی اور ملکہ ‘‘ اور ’’نیک پروین ‘‘ سر فہرست ہیں۔
اِن کے دیگر ڈراموں میں تیسرا پہر، شناخت، پاکیزہ، طائر لاہوتی، کنکر، تھوڑی سی بے وفائی، دیوانگی، دوسرا آسمان، بلبلے، مہربان ہاؤس، منی کی بٹیا، زرد زمانوں کا سویرا، محبت کھیل تماشہ ، قسمت کا لکھا، بے بی، چڑیوں کا چنبہ، سکھ جوڑا، زندگی مجھے تیرا پتہ چاہئے، راجو راکٹ، بیٹی جیسی، چاندنی، پیارے میاں بے چین وغیرہ میں اپنی اداکاری کے خوب جوہر دکھائے۔ صباحت ایک فلم ’’مان جاؤ ناں‘‘ میں بھی اپنی اداکاری کے جلوے دکھا چکی ہیں۔
ہنس مُکھ، خوش گفتار، نرم مزاج اور دوستانہ مزاج رکھنے والی پاکستان کی نامور اداکارہ سے گذشتہ دِنوں ہماری ملاقات ہوئی۔ اُن کی زندگی کے اُتار چڑھاؤ اور فنی مصروفیات سے متعلق ہمارے سوالات کے جواب میں جو کچھ اُنہوں نے کہا، وہ نذرِ قارئین ہے۔
٭… کیا اداکاری کا شوق بچپن سے ہے؟
صباحت بخاری …جی ہاں! یہ شوق بچپن ہی میں پروان چڑھا، شوبز کی دنیا میں آنے کے لیے والدین سے مار بھی بہت کھائی لیکن اپنے شوق سے باز نہ آئی۔
٭…آپ کافی عرصے سے اداکاری کر رہی ہیں لیکن اب تک ہیروئن کا کردار نہیں کیا، جب کہ ماں کے کردار خوب کیے؟
صباحت بخاری …ایسا نہیں ہے، میرا پہلا سٹ کام ڈرامہ 1995ء میں پی ٹی وی پر حیدرامام رضوی کے ساتھ تھا ، اس کا نام تھا ’’اب کیا ہوگا‘‘۔ اس میں ہیروئن ہی تھی۔ اس کے علاوہ ابتدائی دور میں ہیروئن کے کردار کافی کیے ہیں، البتہ ماں کے روپ میں کچھ زیادہ ہی اسکرین پر نظر آتی ہوں۔ ماں کے کردار کرتے ہوئے اب مجھے تقریباً 10برس ہوگئے ہیں۔
دراصل بات یہ ہے کہ، ہمارے معاشرے میں ’’ینگ مدرز‘‘ کا ٹرینڈ نہیں تھا لیکن جب ’’اسٹار پلس‘‘ کا بہت زیادہ عمل دخل ہوا تو اس کے بعد یہاں بھی وہی ٹرینڈ شروع ہوگیا۔ مجھ سے پہلے ماں کے کردار ذہین آپا (مرحومہ) اور سینئرز اداکارہ کرتی تھیں۔ لیکن ’’ینگ مدرز ‘‘ کا رجحان شروع ہوا تو پھر مجھ جیسی خواتین کو یہ کردار ادا کرنا پڑے اور ہم اب تک کررہے ہیں۔
٭… اس فیلڈ میں آپ کو کس نے متعارف کرایا؟
صباحت بخاری …(مسکراتے ہوئے) اس فیلڈ میں نہ تو مجھے کسی نے دھکا دیا اور نہ ہی مجھے کوئی لے کر آیا۔ میرا تعلق سید فیملی سے ہے اس لیے میرے گھر والے شوبز کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے، دراصل مجھے خبریں پڑھنے کا شوق تھا ، اپنی اردو درست کرنے کےلیے میں گھر میں ناول، میگزین ، اخبارات لیے آئینے کے سامنے پڑھتی رہتی تھی، یہ شوق جنون میں بدل گیا تو میں نے خود بھی شوبز میں آنے کے لیے جتن کرنا شروع کردیئے، جب بھی اپنے شوق کا اظہار کرتی گھر میں خوب لڑائیاں ہوتیں، بہرحال کسی نہ کسی طرح والدین کو منا ہی لیا۔ اُن کے راضی ہونے کے بعد پی ٹی وی لاہور میں آڈیشن دیا۔ اعظم خورشید اور رفیق وڑائچ صاحب نے میرا آڈیشن لیا ، میں کامیاب ہوگئی اور پھر لاہور اسٹیشن ہی سے میرے کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔
٭…اس سے قبل کیا اسکول اور کالج کی تقریبات میں ڈراموں میں حصہ لیتی تھیں؟
صباحت بخاری …اسکول اور کالج لائف میں تو زیادہ تر شرارتیں کرتی تھی۔ ڈراموں میں حصہ لینے کے بارے میں تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا، لبتہ مباحثوں میں حصہ لیتی تھی اور خوب دھواں دھار تقریریں کرتی تھی۔
٭… زندگی کا یادگار ڈرامہ کسے سمجھتی ہیں؟
صباحت بخاری …میں نے بہت سے سیریلز میں منفی کردار ادا کئے ہیں جو ناظرین کو تو بہت پسند آئے لیکن مجھے ذاتی طو رپر اتنے اچھے نہیں لگے۔جیو پر میرا ایک سیریل تھا ’’ماسی اور ملکہ ‘‘ اس میں میرا منفرد کردار تھا، اس کے علاوہ ایک سیریل تھا ’’کنکر‘‘ اس میں منفی کردار ادا کیا۔ طائر لاہوتی اور شناخت سمیت کئی ڈرامے ہیں جس میں میرے کردار کو بہت زیادہ پسند کیا گیا لیکن ذاتی طور پر مجھے ایک سیریل میں اپنا کردار بہت اچھا لگا۔ پورے سیریل میں ’’وہیل چیئر‘‘ پر کردار کیا تھا۔
اس سیریل میں فلم اسٹار ندیم کی بیگم کا کردار نبھایا تھا۔ اس کا نام تھا ’’کتنے دور کتنے پاس‘‘ عارف خان اس کے ہدایت کار تھے، وہ سیریل مجھے ذاتی طور پر بہت اچھا لگا تھا۔ میرے نزدیک یہ یاد گار سیریل اور ناقابل فراموش کردار ہے۔
٭… کون سا کردار کرنے کی خواہش ہے؟
صباحت بخاری …اندھی، نفسیاتی یا قیدی خواتین کے کردار کرنے کی خواہش ہے۔
٭… ہر کردار میں خود کو کیسے ڈھال لیتی ہیں؟
صباحت بخاری …جب ایک بار اسکرپٹ پڑھ لیتے ہیں تو بہت اچھی طرح سمجھ آجاتا ہے کہ کس طرح پرفارم کرنا ہے، ویسے تو ہم بہت رونے دھونے والے سین کرتے ہیں لیکن شوٹنگ ختم ہوتی ہی ہنسنا شروع کردیتے ہیں اور ایک دوسرے کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں۔ کرداروں میں ڈوب کر کام کرنے والا وقت بہت پیچھے رہ گیا، اب آرٹسٹ ہنستے کھیلتے کام کرتے ہیں۔
٭… شوخ و چنچل کردار زیادہ اچھے لگتے ہیں یا سنجیدہ؟
صباحت بخاری …جھے منفی کردار زیادہ پسند ہیں یا پھر لائٹ کامیڈی…
٭… مثبت کردار ادا کرنا کیوں اچھا نہیں لگتا؟
صباحت بخاری …مثبت کردار تو سب ہی کررہے ہیں اور اُن میں اتنا مارجن بھی نہیں ہوتا۔
٭…کیا ماضی کے مقابلے میں آج کام کرنا آسان ہے؟
صباحت بخاری …ماضی میں تو اداکار کو بہت پہلے سیٹ پر بلا لیا جاتا تھا اور کافی ریہرسلز ہوتی تھیں، اس وقت ہمارے ڈراموں کی کوالٹی تھی، اب کونٹیٹی تو ہے مگر کوالٹی کم ہوگئی ہے۔ چینلز کے پیٹ بھرنے کے لیے آج ہر شخص دوڑ میں لگا ہوا ہے، سب چاہتے ہیں جلدی کام شروع ہو اور جلد ہی ختم ہو جائے۔
پھر آج کل کےنوجوان ہدایت کار بہت تیزی سے کام کرتے ہیں، اس کے علاوہ اِن پر پروڈیوسرز کا بھی دباؤ ہوتا ہے کہ ہمیں یہ پروجیکٹ اتنے دِن میں مکمل چاہئے۔ اگر اس حساب سے دیکھیں گے تو آج کل کے ہدایت کار مختصر مدت میں بہت اچھا کام کررہے ہیں، البتہ ماضی کے ہدایت کار بہت ٹھہرائو کے ساتھ کام کرتے تھے اُن کے سر پر کسی نے توپ نہیں رکھی ہوتی تھی کہ ایک دِن میں 15-20 سین چاہئیں۔ وہ لوگ ایک دِن میں 2 سے 5 سین کرتے تھے۔
٭… نوجوان ہدایت کارفرینڈلی ہیں یا دباؤ میں کام لیتے ہیں؟
صباحت بخاری …ڈائریکٹرز کو کبھی میں نے ناراض نہیں دیکھا۔ شاید کچھ ہوں گے جنہیں شوٹنگ کے دوران کسی وجہ سے غصہ آجاتا ہوگا لیکن عام طور پر تمام ہی ہدایت کار بہت اچھے انداز میں کام لیتے ہیں۔ ماحول خوش گوار ہی ہوتا ہے۔
٭… آپ ڈائریکشن کی طرف کیوں نہیں آئیں؟
صباحت بخاری …یہ کس نے کہہ دیا، پی ٹی وی کے لیے’’ہر چہرہ ایک کہانی‘‘ کے نام سے سیریز ڈائریکٹ کی تھی وہ میری ہی پروڈکشن تھی۔ اس کے علاوہ پی ٹی وی ورلڈ کے لیے بھی سٹ کام ’’پیارے میاں بے چین‘‘ اپنی پروڈکشن میں بنا چکی ہوں، نیز ایک نجی ٹی وی کے لیے بھی کافی شوز ڈائریکٹ کئے ہیں۔
٭… سنا ہے آپ نے خبریں بھی پڑھی ہیں؟
صباحت بخاری …جی بالکل، ہوا ایسے کہ، ایک بار انائونسر کسی وجہ سے اسٹوڈیو نہیں پہنچیں تو مجھ سے خبریں پڑھنے کی درخواست کی گئی، میری تو نیوز ریڈر بننا دلی خواہش تھی۔ اس طرح میری وہ خواہش پوری ہوگئی۔
ویسے میں نے بہت عرصہ اناؤنسمنٹ بھی کی ہے اور یہ بڑا آسان کام تھا، پی ٹی وی کے دور میں ڈراما شروع ہونے سے پہلے یا سیاسی ایونٹ کے آغاز میں اناؤنسمنٹ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا، لیکن خبریں پڑھنا واقعی بہت مشکل اور روکھا کام ہے، اس لیے شوق دم توڑ گیا۔
٭… شوہر آپ کے ڈرامے شوق سے دیکھتے ہیں یا کسی اور کے؟
صباحت بخاری …(مسکراتے ہوئے) گھر پر میرا ڈرامہ دیکھتے ہیں، میری غیر موجودگی میں کس کے ڈرامے دیکھتے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔
٭… کس اداکار سے متاثر ہیں؟
صباحت بخاری …مجھے شفیع محمد مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا بہت شوق تھا لیکن بدقسمتی سے اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے علاوہ قوی خان، شبیر جان ، عابد علی اور بہروز سمیت کئی نام ور اداکاروں کے ساتھ کام کرچکی ہوں۔ تمام ہی آرٹسٹ بہترین اور تعاون کرتے ہیں۔ خواتین میں سجل علی، صبا قمر، لائبہ خان، ژالے سرحدی، لیلیٰ واسطی، ماریہ واسطی یہ وہ لڑکیاں ہیں جنہیں اداکاری کا شوق ہے اور بہترین اداکاری کرتی ہیں۔
٭… اگر آپ اداکارہ نہ ہوتیں تو آج کیا ہوتیں؟
صباحت بخاری …(مسکراتے ہوئے) میرے والد ہاکی کھیلا کرتے تھے، میںکالج میں والی بال کھیلتی تھی، بیڈ منٹن کا شوق بھی رہا ، ایک اسکول میں ٹیچنگ کی اس کے علاوہ ٹیوشنز بھی پڑھائی، فیس بُک اور انسٹا گرام پر آج بھی میرے اسٹوڈنس مجھے فالو کرتے ہیں۔ لیکن اگر اداکارہ نہ ہوتی تو شاید گھر داری میں مصروف رہتی، کبھی کبھار کوئی شوق پورا کرلیتی۔
٭… رہائش لاہور کی ہے ، شوٹنگ کے لیے کراچی آنے میں دشواری نہیں ہوتی ؟ کراچی اور لاہور میں کیا فرق لگا؟
صباحت بخاری …میں گلبرگ لاہور میں رہتی ہوں۔ بات یہ ہے کہ مجھے ایئر ہوسٹس بننے کا بہت شوق تھا اس لیے کراچی آگئی، ایک ایئر لائن میں ایئر ہوسٹس بننے کا شوق بھی پورا کرلیا، ہر کام کی طرح ایئر ہوسٹس کا کام بھی بہت مشکل ہوتا ہے، مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل فلائٹس میں آپ کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، جب جہاز ٹیک آف کرتا ہے تو کھانے کی میز کو سنبھالنے میں کمر کی تکلیف ہو جاتی تھی، بہرحال جب دِل بھر گیا تو خود ہی ملازمت چھوڑ دی۔
کراچی اس لیے اچھا لگتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ آزاد خیال ہیں، یہاں تعلیم کا ریشو تھوڑا زیادہ ہے جبکہ لاہور میں پی ٹی وی کے دور میں رات 12 بجے کے بعد اگر کوئی خاتون ڈرائیور کے ساتھ واپس گھر آرہی ہو تو اہل علاقہ نظر رکھتے تھے کس کے گھر میں کون آرہا ہے اور کس کے ساتھ آرہا ہے ، پنجاب میں آج بھی ایسا ہی ماحول ہے۔ لیکن کراچی میں ڈیفنس کے اندر آس پڑوس کا ایک دوسرے کو علم نہیں ہوتا، یہاں کوئی کسی کی موت پر جاتا ہے نہ ہی کسی کی خوشی میں شریک ہوتا ہے۔ دونوں شہروں میں مجھے تو بس یہی ایک اہم فرق نظر آیا ہے۔
٭… آپ کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ آپ کو گھر میں رہنے کا شوق نہیں تھا، کیا والد بہت سخت مزاج تھے؟
صباحت بخاری …(مسکراتے ہوئے) جی ہاں! والد بہت سخت مزاج تھے، پڑھائی پر ابا سے کافی مار پڑتی تھی، لیکن اُن ہی سے میں نے سائیکل، بائیک اور گاڑی چلانا بھی سیکھی ہے۔ وہ ایئر فورس میں تھے اس لیے مجھ میں بھی فوجی جراثیم کافی زیادہ ہیں۔
٭… کچھ اہل خانہ کے بارے میں بتائیں؟
صباحت بخاری …ہم دوبہنیں اور ایک بھائی ہے، شوبز میں میرے علاوہ کوئی بھی نہیں آیا البتہ میرے بیٹے کا موسیقی کی طرف کافی رجحان ہے۔ اسے اداکاری کا شوق نہیں، البتہ میرے ڈرامے ضرور دیکھتا ہے، اس کے علاوہ ایک ڈرامہ تھا ’’میرا سائیں ‘‘ اس کے سیزن ون میں میرے بیٹے نے فہد مصطفی کے بچپن کا رول کیا تھا۔
٭… سنا ہے آپ کو موسیقی کا شوق ہے؟
صباحت بخاری …بہت شوق تھا لیکن میں اُس فیلڈ میں کچھ کر نہیں سکی۔ گٹار اور کی بورڈ بجاتی تھی۔ اپنی تنخواہ سے کچھ پیسے جمع کرکے گٹار بھی خریدار لیکن بعد میں پتہ چلا کہ گٹار بجانے کے لیے ناخنوں کی قربانی دینا پڑتی ہے اس لیے چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ اس دور میں موسیقی کو اچھا بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
٭… کیا صرف شادی بیاہ میں گیت گاتیتھیں؟
صباحت بخاری …شادی بیاہ میں تو میرے بغیر گیت ہی نہیں گائے جاتے تھے، ڈھولکی ، شرارتیں، چیخ و پکار اور گیت گانے وغیرہ سب میں پیش پیش ہوتی تھی، میرے بغیر تو کوئی ڈھولکی نہیں بجاسکتا تھا لیکن اب تو ڈھولکی کا فیشن ہی ختم ہوگیا ہے۔
٭… ڈراموں کے معیار سے مطمئن ہیں؟
صباحت بخاری …جہاں تعداد زیادہ ہو جائے وہاں معیار کم ہو جاتا ہے۔ ڈراموں میں کونٹینٹ کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اِس دور میں اچھے رائٹرز کی کمی ہے، جو نوجوان رائٹر ہیں اُن میں بہت کم اچھا لکھتے ہیں، ہمیں تو اب ڈرامے کا اسکرپٹ پڑھنے کے بعد ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ تو ہم نے پہلے بھی پڑھا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب ڈراموں میں وہ دل چسپی نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔
٭… کیا فلموں میں کام کیا ہے؟
صباحت بخاری …گذشتہ برس ایک فلم ’’مان جائو ناں‘‘ میں کام کیا تھا۔ آج کل فلموں میں تجربات زیادہ ہورہے ہیں بہرحال اچھی آفر ملے گی تو ضرور کروں گی۔
٭…چینلز کی بہتات سے آرٹسٹوں کو آسانیاں ہوئیں یا مشکلات؟
صباحت بخاری …آسانیوں تو ضرور ہوئیں، کام بھی زیادہ ملنے لگا لیکن مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں، اب تو چینلز کی اجارہ داری ہے، جن اسٹارز کی چینلز کے ساتھ اچھی وابستگی ہے، وہ وہیں کام کررہے ہیں۔ اِس وجہ سے بہت سے رائٹرز اور پروڈیوسرز نے کام چھوڑ دیا ہے۔ یہ میں کچھ چینلز کی بات کررہی ہوں دیگر چینلز میں ادائیگیاں وقت پر نہیں ہوتیں۔
کچھ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ آرٹسٹ کے آدھے دِن کے پیسے دیں، کچھ دو منٹ کے سین کے لیے دو گھنٹے لے لیتے ہیں لیکن اس وقت کا کوئی حساب نہیں کرتے، کئی ایسے ہیں جن کے ڈرامے آن ایئر جاتے ہیں وہ بروقت ادائیگی کردیتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو تاخیر سے پیسے دیتے ہیں لیکن دے دیتے ہیں ۔
٭… کیا آپ کامیابی کی منزل پر پہنچ گئی ہیں؟
صباحت بخاری …میں اپنے رب کی شکر گزار ہوں کہ زندگی میں جو کچھ میں کرنا چاہتی تھی 70 فیصد وہ سب کیا ، 30 فیصد اس لیے نہ کرسکی کیونکہ یہاں ٹانگیں کھینچنے والے بہت ہیں لیکن پروردگار نے مجھے بہت عزت دی ہے، اسی لیے لوگ عزت کرتے ہیں اور پہچانتے ہیں۔
٭… اداکاری ضرورتاً کررہی ہیں یا شوقیہ؟
صباحت بخاری …پہلے شوقیہ کرتی تھی اب نہیں،کیونکہ اس دور میں گھر چلانے کے لیے گھر میں موجود تمام افراد کو اپنا شیئر ڈالنا پڑتا ہے اور شیئرنگ کرنی بھی چاہئے اس میں کوئی بری بات نہیں ۔ لیکن مجھے کوئی لالچ نہیں ہے یا فلاں سے کہوں کہ فلاں کو سیریل سے نکال کر تھوڑے پیسوں میں مجھے سائن کرلو، جو نصیب میں ہے وہ مل کر رہے گا۔ آج کے دور میں کوئی شوقیہ کام نہیں کرتا۔
٭… کردار دیکھ کر کام کی حامی بھرتی ہیں یا کاسٹ، رائٹر، پروڈیوسر کو دیکھ کر؟
صباحت بخاری …اداکار کا کردار اہم ہوتا ہے، باقی ڈرامے کی کاسٹ میں کون ہے، کون پروڈیوس کر رہا ہے، رائٹر کون ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭… کس آرٹسٹ کے ساتھ زیادہ ہم آہنگی ہے؟
صباحت بخاری …سب ہی کے ساتھ ہم آہنگی ہے، کچھ خواتین کو مجھ سے زیادہ پرابلم ہو تو الگ بات ہے، لیکن مرد حضرات کے ساتھ جن میں عدنان جیلانی ، لغاری، ساجد حسن وغیرہ سے ذہنی ہم آہنگی زیادہ ہے، حتیٰ کے عابد علی مرحوم جیسے سنجیدہ اور سوبر فن کار کے ساتھ بھی مذاق کیا کرتی تھی اور وہ مسکرا دیا کرتے تھے۔
٭…پاکستان کے سیاسی حالات سے مطمئن ہیں؟
صباحت بخاری …جب تک ہم خود صحیح نہیں ہوں گے اس وقت تک کچھ بھی صحیح نہیں ہوگا۔ یہ قوم ڈنڈے سے چلنے والی ہے، اگر آپ کو اس ملک میں کچھ بہتری لانی ہے تو ڈنڈے کا سہارا لینا پڑے گا۔ آپ ٹریفک کے معاملات سدھارنا چاہتے ہیں تو سخت قوانین لائیں، جرمانے بڑھائیں، قوانین پر عمل کرائیں، ٹریفک پولیس کی تنخواہیں بڑھائیں، اُنہیں مراعات دیں تاکہ وہ رشوت نہ لیں، ٹریفک پولیس اہلکار 45 ڈگری دھوپ میں، کمبل سے زیادہ سخت یونیفارم اور بھاری بوٹ پہن کر سڑک پر کھڑے ہوتے ہیں، اب تو اُن کے سر سے چھتری بھی چھن گئی ہے، ایسی صورتحال میں اگر آپ اُنہیں سہولتیں نہیں دیں گے تو پھر اُن سے کیا توقع رکھیں گے، پھر تو وہ رشوت ہی لیں گے۔
کیمرے لگائیں، چیک اینڈ بلینس کریں، یہاں ہر سگنل بکا ہوا ہے، سرکاری اداروں میں رشوت دیئے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ ہم معاشرے کو ٹھیک کرنے کی بہت باتیں کرتے ہیں لیکن کام آسانی سے کرانے کے لیے رشوت بھی خود ہی دیتے ہیں تالی تو دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
٭… کس رائٹر کے سیریل میں کام کرنا پسند کرتی ہیں؟
صباحت بخاری …ایک وقت تھا جب سیما غزل، زبیر عباسی، نور الہدیٰ شاہ، بجیا اِن جیسے سینئر رائٹرز کی کہانیاں بہت اچھی ہوا کرتی تھیں۔ چاہتی تھی ان کی ہر سیریل میں کام کرروں۔ بجیا دنیا سے چلی گئیں، بقیہ لکھ نہیں رہے، اس لیے اب جو کردار ملتا ہے، اُسے دیکھ کر ہاں یا ناں کردیتی ہوں۔
٭…کیا پرستار سیلفیاں لیتے ہیں، اگر ایسا ہے تو کیسا لگتا ہے؟
صباحت بخاری …ہم فیملیز کے ساتھ مال جاتے ہیں تو، کھانا وغیرہ کھا رہے ہوتے ہیں تو، لوگ سیلفیاں لینے آجاتے ہیں، اُنہیں منع کرنا بھی مناسب نہیں، لیکن اُنہیں سوچنا چاہیے کہ کھانا کھاتے یا شاپنگ کرتے وقت تو ایسا نہ کریں۔ بہرحال پرستار ہر کسی کے ساتھ سیلفی نہیں لیتے، یہ بھی اوپر والے کا کرم ہے کہ لوگ سب کو چھوڑ کر آپ کے پاس آتے ہیں تو اُنہیں ہر گز جھڑکنا نہیں چاہئے۔
ایک اور بات بتاؤں کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا دور تھا، میں شہر میں بائیک چلایا کرتی تھی اس وقت شہر میں آئے دن ہڑتال کے باعث سڑکیں سنسان ، ادارے اور دُکانیں بند ہوتی تھیں، میں شاہ راہ فیصل پر اپنی ٹریل بائیک دوڑایا کرتی تھی لیکن کبھی کسی کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ مجھے چھیڑے یا تنگ کرے البتہ اب جو نئی لڑکیاں تربیت لے کر بائیک چلا رہی ہیں اُنہیں کافی مشکلات ہیں۔ مرد ایسے گھور گھور کر دیکھتے ہیں جیسے کوئی انوکھا کام کر رہی ہیں۔