30نومبر 1967! پاکستان پیپلز پارٹی کا یومِ تاسیس ہے۔ یومِ تاسیس سے لے کر آج مورخہ 4جنوری 2020تک گویا 53واں برس جا رہا ہے، اس 53ویں برس بھی پاکستان پیپلز پارٹی روایت کے عین مطابق آتش و آہن کے اذیت دہ ماحول کا سامنا کر رہی ہے البتہ تاریخ میں پہلی بار اِس کے بہائو کا تقریباً سارا رُخ سندھ کی جانب ہے۔
اِس وقوعے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک صوبے تک محدود ہونے کی نظریاتی لاف زنی کی تصدیق نہ کریں، اِس کا اصل سبب پیپلز پارٹی کا سندھ میں برسرِاقتدار ہونا ہے، وہ اگر آج وفاق اور باقی تین صوبوں میں بھی حکومت کر رہی ہوتی تب اِن صوبوں میں بھی اس پارٹی کا سر سنگ زنوں کا واحد ہدف ہوتا۔
ایک رجحانphenomenaالبتہ اپنی مدت کے حساب سے ذرا دیر سے سامنے آیا ہے جبکہ اس رجحان یا مظاہر کی یومِ تاسیس کے بعد اِسی روز سے پیدائش ہو گئی تھی جب اُس کے پہلے بانی چیئرمین کا اعلان کیا گیا یعنی ذوالفقار علی بھٹو! وہ رجحان ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمینوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کرنا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں ذوالفقار علی سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک اس فنی پرکاری کا نہایت برموقع اور نہایت بےدردی سے استعمال کیا گیا۔
دوسرا پہلو پی پی کے اندر سے سیاسی اقدار کے نام پر اپنے مفادات کے گدلے پانیوں میں تیرنے کے واقعات ہیں۔ ماضی کی تفصیل میں کیا جانا، پیپلز پارٹی کے نام پر اِس کے مقابل جو سیاسی جتھے ’’پی پی فلاں‘‘ کے لاحقے کے ساتھ وجود میں آئے، نہ اُن کے نام پاکستانی عوام کی یادداشت سے محو ہوئے نہ اُن کے انجام۔
ہاں! اِس بار پیپلز پارٹی کے بجرے پر سوار ہو کر گزشتہ اقتدار میں، اپنی وزارتوں کے لشکارے، انجوائے کرنے والے بعض وزرا اور چند دیگر شخصیات نے کسی حد تک ایک نئی سیاسی فتنہ گری کو جنم دیا اور اس کی مسلسل پرورش میں لگے ہوئے ہیں۔
وہ لوگ جو تعلیم یافتہ اور نظریات کے بیانیے کی اہلیت رکھتے ہوں مگر اُن کی ذاتی انانیت کسی پارٹی کے بنیادی نظریئے، رویئے عام کارکنوں اور عوام کے لئے ننھی منی فرعونیت کی جھلکیاں پیش کرے ان سے جماعتوں کو بچنا چاہئے، ان کا وار ناقابل برداشت ہوتا ہے۔
مرکزی خیال موضوع سخن کی طرح واریوں کا شکار ہو گیا۔ عرض یہ کیا تھا، ان دنوں پارٹی کے اندر رہتے ہوئے ’’ٹی وی ٹاک شو پارٹی‘‘ کا ایک سرخیل اور چند دیگر شخصیات آصف علی زرداری کو پیپلز پارٹی کے لئے ایک Liability (بوجھ، ملبہ) قرار دے رہے ہیں جنہیں پی پی کے کندھوں سے اتارنا اس جماعت کی بقا کا ناگزیر تقاضا بن چکا ہے۔
اختتامی جواب سے پہلے کیوں نہ سابق صدر اور شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری پر تھوڑی سی گفتگو ہو جائے۔ سابق صدر اور شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کی قریباً تقدیر بنا دی گئی جب اُنہیں بی بی شہید نے قبول کر لیا، بی بی شہید پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے اس سیاسی ورثے کا نام تھا جس میں عوام کی محبت، ملک سے وفا، قومی ذہانت و فراست اور دور اندیشی مثالی گراف کو چھوتی ہے۔
بی بی باپ کے خوابوں کی حقیقی تعبیر کے لئے خود کو خانگی پابندیوں سے الگ رکھنے پر مصر تھیں تاہم قدرت اور باخبر والدہ کا اسی قدرت کے عطا کردہ شعوری احساس کے نتیجے میں احساس تھا کہ اس قدر عظیم قربانی بھی اس قوم میں کلنک کا ٹیکہ بنا دی جائے گی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت ریاست کی بڑی اکثریت کی تعظیم، علم و ذکاوت پر مبنی بین الاقوامی شہرت، ملک کی سب سے بڑی قومی جماعت کی قیادت پر متوقع حکمرانی بینظیر بھٹو کا ایسا اثاثہ تھا جس کی بنا پر اُن کا شریکِ سفر بننے کی آرزو رکھنے والوں کا ایک ہجوم تھا۔
یہاں وہ صرف قدرت کی ہی احسان مند رہی ہوں گی جس نے انہیں صرف آصف علی زرداری کے حق میں فیصلے کی دانش عطا فرما دی۔ ماضی کا ایک لمحہ ہے، بی بی شہید جناب آصف علی زرداری کے ساتھ ایک ٹی وی چینل کے مشترکہ لائیو انٹرویو میں موجود تھیں۔
آصف کے پاس ہونے کی طمانیت اُن کے دمکتے چہرے میں اِس طرح کی دمک میں ڈھل گئی جس میں رفاقت کی پُرفخر پرچھائیوں کے حیات آمیز اور حیات آموز سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اُس وقت اُنہیں اپنے ذرائع سے خطرات کے اشارے پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
شاید اس دبائو کے اثرات تھے جس کے پسِ منظر میں اُنہوں نے آصف صاحب کو تجویز کیا کہ وہ باہمی رضا مندی اور بچوں کے مستقبل کے حوالے سے اُن سے علیحدگی اختیار کر لیں بصورت دیگر وہ خطرے میں رہیں گے جس پر اس یادگار لمحے میں آصف علی زرداری اور آج کے سابق صدر مملکت کا جواب تھا ’’بی بی آج کہا ہے، آئندہ نہیں کہنا، میں بلوچ ہوں اور بلوچ محض اس طرح کے خوف کی بنیادوں پر بیویوں کو نہیں چھوڑا کرتے‘‘۔
بی بی نے تو اپنی شہادت تک پھر کبھی ایسا لفظ منہ سے نہ نکالا مگر ٹڈی دِل مخالفوں کی شکست خوردہ شور و غوغا نے اُن کی جان نہیں چھوڑی۔
چند روز قبل جناب آصف علی زرداری کو ٹیکنا ایس جی ایس کیس سے بری کیا گیا۔ پھر بھی ایسی ہی ذہنی سفاکیت کم نظری بھی کہا جا سکتا ہے، کا ردِعمل تھا یعنی آصف علی زرداری کو عدل ملنے کے استحقاق سے محروم کر دینا چاہئے۔
انسانی اقدار کے قبرستان کھودنے میں پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کے مخالفین کو یدطولیٰ حاصل ہے۔ آصف علی زرداری نے آج تک اُن کے مقابل صبر، شجاعت اور سچائی کا راستہ ترک نہیں کیا۔
پارٹی کے اندر اور باہر جو لوگ آصف علی زرداری کو ’’بوجھ‘‘ ثابت کرنے پر تل گئے ہیں یا ’’تول‘‘ دیئے گئے ہیں وہ سب اسے ’’بحیرہ عرب‘‘ میں پھینکنے کی منصوبہ بندی کریں، دوسری شکل میں تو وہ عوام دشمنوں کے سینے پر مونگ دلتا ہی رہے گا ۔