کراچی سے ٹھٹہ کی جانب جانے والی شاہراہ پر قائدآباد سے تقریباً 8کلومیٹر کے فاصلےپر پاکستان اسٹیل مل اور اس کی رہائشی کالونی ، اسٹیل ٹاؤن کے قریب رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقب میں چوکنڈی کا قبرستان واقع ہے۔ 600سالہ قدیم قبرستان میں 15 سے 18ویں صدی کے دوران فوت ہونے والے عظیم الشان شخصیات مدفون ہیں۔
یہ قبریں دو قبیلوں ’’جوکھیو‘ اور’ ’بلوچوں‘‘ سے منسوب کی جاتی ہیں۔چوکنڈی کے لغوی معنی ’’چار کونوں‘ ‘کے ہیں۔ چونکہ یہاں موجود تمام قبروں کے چار کونے ہیں غالباً اسی وجہ سےیہ ’’چوکنڈی قبرستان‘ ‘کے نام سے معروف ہے۔اس کی تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جوزرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ جنگ شاہی میں یہ پتھر آج بھی اسی رنگ میں ملتا اور استعمال ہوتا ہے۔
اس تاریخی قبرستان کے نام سے متعلق متعدد مؤرخین نے لفظ ’’ چوکنڈی ‘‘ کے بارے میں متعدد آرا ء بیان کی ہیں۔ہنری کزنس نے ایسی تمام قبروں کوجو کراچی ، حیدرآباد ، ٹھٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں، ’’چوکنڈی ‘‘کہا ہے۔اس قبرستان کے مقابر پر تحقیق کرنے والوں میں سب سے پہلے ہنری کزنس کا نام آتا ہے جو1910میں آرکیا لوجیکل سروے کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ اس کے بعدجی ای ایل کارٹر کا نام لیا جاتاہے جو ہندوستان میں سول سروس کے رکن تھے۔
معروف مخقق، ممتاز حسن کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک سندھی زبان میں ’’ چوکے ‘‘ کے معنی چار کے ہیں اور ’’ کنڈ‘‘ کونے یا ستون کو کہاجاتا ہے۔ اس طرح چوکنڈی کا مطلب وہ چار ستون ہیں، جو قبروں پر چھتری نما گنبد کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔اسی طرح کی اور تمام قبریں شامل ہیں، جن پر ستونوں کے سہارے گنبد کھڑے کئے گئے ہوں، لیکن یہ درست نہیں ہے، کیونکہ ایسی قبروں میں جن میں گول اور مربع شکل کے گنبدبنے ہوئے ہیں، وہ بارہ ستونوں پر کھڑے ہوئے ہیں۔
چوکنڈی کی قبروں پر موجود کتبوں سےمورخین ومحققین حضرات کے ان نظریات کوتقویت ملتی ہے کہ چوکنڈی سےمراد کوئی مخصوص مقام یا علاقہ ہے۔ مثلاً ایک قبر کے کتبے پر کلمہ طیبہ کے بعد اس میںمدفون شخصیت کا تعارف،’’مرید ین حاجی صاحب چوکنڈی‘‘کے طور پر کرایا گیا ہے۔مندرجہ بالا کتبے کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ چوکنڈی کا استعمال ان قبروں میں مدفون افراد کے اپنے علاقوں یا موضع سے ہو ، یا ممکن ہے کہ چوکنڈی اہل قبور کے اصل وطن کا نام ہو ، جو کسی مقصد کے تحت یہاں پر آباد ہوکر دارفانی سے کوچ کرگئے ہوں، یاپھر کسی جنگ میں مارے جانے کے بعد یہیں دفنائے گئے ہوں۔
چوکنڈی کا قبرستان کراچی شہرسے تقریباً 38کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دورافتادہ علاقے میں واقع ہے۔صدیوں تک یہ علاقہ غیر آباد رہا ہے،گردو نواح میں صرف چند گوٹھ موجود تھےاورٹھٹہ کی جانب سفر کرنے والے لوگ ہی یہاں سے گزرا کرتے تھے ۔ 70کے عشرے میں اسٹیل مل کے قیام کے بعدیہاں کی رونق بھی بڑھنے لگی۔ سمتوں کے اعتبار سےاس قدیم گورستان کے مشرق میں رزاق آباد، جبکہ مغرب میں سوکنڈی ندی ہے، شمال میں جام کنڈہ، حاجی نانا گوٹھ حاجی ولی محمد گوٹھ اور مسلمان گوٹھ واقع ہیں۔ جنوب میں بھینس کالونی ہے جس کے ساتھ یوسف گوٹھ ہے۔
چوکنڈی کا قبرستان ایک طرح سے دو حصوں میںمنقسم ہے۔ مشرقی حصے میں قبروں کی تعداد کم جبکہ غربی حصے میںبہت زیادہ ہے۔اس قبرستان کےبارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مشرقی حصہ میںجوکھیوقبیلے کے افراد کی قبریں ہیں جب کہ مغربی حصہ میں بلوچ قوم کے افراد مدفون ہیں۔ اس بات میں زیادہ صداقت نہیں ہے۔
راقم الحروف نے خود اس قبرستان اور گردو نواح کے علاقوں کے مطالعاتی دورے کے دوران جوکھیوں کی قبروں پر کندہ تحریر یں مشرقی کے علاوہ مغربی حصے میں بھی پڑ ھی ہیں، جو کہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ غربی یاشرقی دونوں حصوں میں جو کھیوں اور بلوچوںکی قبروں کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ چوکنڈی کے قبرستان کی مماثل قبریں دیگر علاقوں میں بھی موجود ہیں۔منگھوپیر کے مزار کے پاس موجود قبریں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ منگھوپیر کے علاقے میں تو اب چوکنڈی طرز کی صرف ایک قبر باقی بچی ہے جب کہ یہاں کی دیگر قبریں محکمہ قدیم آثارکی لاپروائی کے سبب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔
چوکنڈی کا قبرستان فنکارانہ مہارت اور نقش ونگاری کے کام کا اعلیٰ نمونہ ہے اور تاریخی حیثیت سے پاکستان کے اہم گور ستانوں میں منفرد طرز تعمیر کا ایک بنیادی جزواور روایتی اندازِ فن تعمیر میں اپنی مثال آپ ہے۔ چوکنڈی کے تمام مقبرے زیادہ ترپیلے اور رتیلے پتھر کی سلوںسے تعمیر کئے گئےہیں۔ جب ہم ان مقابر کی تعمیراتی ترتیب اور اس کے طرز تعمیر پر غور کرتے ہیں تو ان کے معماروں کی کاری گری اور ہنرمندی کو بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے ۔
چوکنڈی میں موجود مستطیل نما قبریں عموماً ڈھائی فٹ چوڑی، پانچ فٹ لمبی اور چار سے چھ فٹ تک اونچی ہیں۔قبروں پر باقاعدہ نقش نگاری کی گئی ہے۔ نقاشی میں پھول بوٹے، مختلف ڈیزائن، مصرکے بادشاہوں کے تاج سے ملتے جلتے سرہانےاور جالیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ کچھ قبروں پر بلندوبالا گنبد بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ چوکنڈی کے قبرستان میں محو خواب عام لوگ نہیں ہیں۔
وہ اپنی زندگی میں اعلیٰ منصب داریا حکم راں رہےہوں گے ۔یہاں ایسی قبریں بھی موجود ہیںجن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اور تلوار، خنجر و غیرہ کے نقوش سے مرصع ہیں۔ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات منقش کئے گئے ہیں۔کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت ’’گہوارے ‘‘سے مشابہہ رکھنے والے نقوش بھی بنائے گئے،جن سے واضح ہوتا ہےکہ یہ قبریں شادی شدہ رئیس خواتین کی ہیں۔
بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔یہ قبریں اس دور کے تعمیری فن کابہترین نمونہ ہیں لیکن افسوس محکمہ ثقافت کے پاس قدیم آثا ر کی دکھ بھال، تعمیر و مرمت کے لیے خطیر رقوم کے فنڈ کی موجودگی کے باوجود ان آثار کو معدومیت سے بچانے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ عظیم تاریخی ورثہ تباہی سے دوچار ہے۔
چوکنڈی کے قبرستان کی قبروں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ قبریں کسی ایک قبیلے یا خاندان کی نہیںبلکہ یہاں متعدد قبیلوں اور خاندانوں کے لوگ مدفون ہیں۔ ہمیں یہاں پر داد خان جوکھیو ، ساحرجوکھیو، جام راہو جو کھیو، بجار بن جاٹا جوکھیوجیسے نام ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض کتبوں پر ’’ جام‘‘ کا لفظ بھی ناموں سے پہلے لکھا ہوا نظر آیا۔ مثلاً جام مرید بن جام حاجی میران بن جام رادھودودوبن جام مہرعلی اس بات سے اندازہ ہوگیا ہے کہ چوکنڈی قبرستان میں جوکھیہ سمیت سندھ میں بسنے والے تمام قبائل کے افراد مدفون ہیں۔ چوکنڈی قبرستان میں زنگی بن یعقوب نامی شخص کی واحد قبر ایسی ہے، جس سے اس کے سن وفات کا پتہ چلتا ہے۔
چوکنڈی قبرستان کی قبروں کے علاوہ ایسی ہی یک قدیم قبر بھینس کالونی کے قبرستان میں واقع ہے، جس پر سن وفات 1752مرقوم ہے۔ یہ قبر قاسم جام مرید بن حاجی کی ہے جو اورنگزیب بادشاہ کی ملتان کی گورنری کے دور میں جوکھیو قبیلے کا سردار تھا ۔ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ چوکنڈی کا قبرستان16ویں صدی کے بعدجوکھیوں کا خاندانی قبرستان رہاہوگا، جہاں جام مرید بن حاجی کے آباواجداد دفن ہیں۔
چوکنڈی قبرستان کے متعلق دانشور حضرات اور آثار قدیمہ کے ماہرین کی حتمی رائے ہے کہ اس کے مقابرکا تعلق15 سے18ویں صدی کے ادوار سے ہے۔یہاں کی قبروں کے چند کتبوں کے مطابق ان کی تعمیر18ویں صدی عیسوی میں کی گئی ہے۔ ممتاز حسن کی تحریر کے مطابق ’’ چوکنڈی کا آخری مقبرہ 1918 میںجام مراد علی خان کی قبر پر تعمیر ہوا ۔
انداز تعمیر کے علاوہ قبروں پر موجودہ نقش ونگار بھی اپنی مثال آپ ہیں قبروں کا قریب سے مشاہدہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر اتنی محنت کی گئی ہے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ قرب وجوار میں آبادی کے آثار کی غیر موجودگی اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ اس دور کے لوگ اپنے دنیاوی گھروںکے مقابلے میں اپنی آخری آرام گاہوں پرتوجہ مرکوز رکھتے تھے۔ ان قبروں پر حسن ونفاست سے بنائے ہوئے بیل بوٹے، انسانوں اور جانوروں کی اشکال اور زیورات وغیرہ کے ڈیزائن بنے ہوئے ہیں۔ ان نقوش میں انسانوں اور جانوروںکی زندگی کے مختلف مراحل میں دکھاگیا ہے۔ متعدد قبروں پر اس زمانے میں مروج زیورات کے ڈیزائن منقش کیے گئے ہیں۔
اس قبرستان سے پراسرار داستانیں منسوب ہیں۔ اس بارے میں جب اس قبرستان کی دیکھ بھال کرنے والے ایک ملازم سے سوال کیا تو اس نے انہیں افواہیں قرار دیا۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس جگہ برسہا برس سے رہ رہا ہے ،اس سے پہلے اس کے والد بھی یہاں رہا کرتے تھے۔اس نے کہا کہ میں یہاں بچے سے بڑا ہواہوں لیکن میں نے آج تک یہاں کوئی ایسی غیر معمولی بات یا واقعہ نہیں دیکھا۔جب کہ میرےوالد نے بھی اس قسم کے کسی واقعے کا تذکرہ نہیں کیا۔