آج کل فلموں کا نام رکھنا مشکل دکھائی دیتا ہے، جس طرح موسیقاروں کے نئے گانے بنانا آسان نہیں رہا، تو وہ پُرانے گانوں کا ری میک کررہے ہیں، اسی طرح ایک ہی نام سے کئی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ ’’تلاش‘‘ کے نام سے چار عدد اردو فلمیں بن چکی ہیں، سب سے پہلے ہم 2019 میں تلاش کے نام سے گزشتہ سال نومبر میں ریلیز ہونے والی فیچر فلم کے بارے میں بات کریں گے۔ یہ پہلی پاکستانی فلم ہے، جسے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز نیویارک میں دکھائی گئی، یقیناً اس فلم کے فلم ساز، ہدایت کار اور فن کاروں کے لیے ہی نہیں، پاکستان کے لیے بھی یہ اعزاز کی بات ہے کہ ہماری فلم وہاں دکھائی گئی۔
پاکستانی سینما اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا کررہا ہے، وہاں بہت سی مشکلات بھی ہیں۔ بہت کم تعداد میں ہمارے یہاں فلمیں بن رہی ہیں اور ڈیجیٹل سینما کے اس جدید اسٹریکچر میں وہی فلم موجودہ فلم بینوں کو متاثر کرنے میں کام یاب ہوگی، جو ان تمام تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جائے گی، جن سے دیکھنے والوں کو بھرپور تفریح مہیا ہو، مہنگائی کے اس دور میں کل کی یہ سستی ترین تفریح بھی اب بہت مہنگی ہوچکی ہے۔
لہٰذا دیکھنے والے بھی اسی فلم کو ویلکم کریں گے جو ان کے لیے دل چسپی کا سبب نہ بنے۔ نئی فلم تلاش کے متعلق بتایا گیا کہ یہ بین الاقوامی مسئلے پر بننے والی ایک نیم آرٹ فلم ہے، جس میں اناج کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اس کی قلت کو کس طرح سے قابو کر پائیں گے۔
پاکستان کا شمار ایک زرعی ملک کے طور پر ضرور ہوتا ہے ، لیکن یہاں غذائی قلت کی جو صورتِ حال ہے اور غریب طبقہ جس طرح کی زندگی بسر کررہا ہے، اس کی عکاسی اس فلم کے موضوع میں شامل ہے۔ فلم کی کہانی کو دل چسپ بنانے کے لیے ثقافتی، رومانی اور مزاحیہ ہلکے پھلکے مناظر میں شامل کیے گئے ہیں، جہاں تک ایکشن کے مناظر ہیں، وہ بھی اس مووی میں نظر آتے ہیں۔
اس طرح کی نیم آرٹ یا مکمل آرٹ فلمیں کبھی بھی پاکستانی باکس آفس پر کام یاب نہیں ہوپائی ہیں، جس کی بڑی وجہ ہمارے یہاں پیریلر سینما موجود نہیں ہے، جس زمانے میں پاکستانی فلمیں اپنے عروج پر تھیں۔اس وقت مہینوں اور سال بھر فلموں کی نمائش سینما ہالز میں جاری رہتی تھیں۔ اس دور میں نیم آرٹ اور آٹ فلمیں کام یاب نہ ہو پائیں یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے۔
پاکستان باکس آفس پر ہمیشہ کمرشل فلموں کی مانگ اور اہمیت رہی ہے اور آج بھی جو مکمل کمرشل فلمیں بنیں ہیں، ان کا بزنس بہت شان دار اور قابل ذکر رہا ہے۔ ’’تلاش‘‘ کے ہدایت کار ذیشان خان نے اس فلم میں بہت محنت کی ہے، جو فلم دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے، جن لوکیشن پر اس فلم کو شوٹ کیا گیا ہے، وہاں واقعی ابھی تک وہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ فاریہ حسن اور نعمان سمیع کے نئے پیئر نے اپنے اپنے کرداروں میں پوری کوشش کی ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کریں۔
سینئر اداکار مصطفیٰ قریشی بھی اس فلم میں نظر آئے۔ فلم میں آج کے معروف اور اہم اداکار سلیم معراج کا کردار بھی بڑا مضبوط ہے۔ فلم کی کہانی میں بہت اہم پہلوئوں کی نشان دہی کی گئی ہے، بہت سی خوبیوں کے باوجود ’’تلاش‘‘ دیکھنے والوں کو جس چیز اور بات کی تلاش تھی، وہ انہیں نہ پاسکے۔ میوزک میں صرف ہے جمالو ہی دیکھنے والوں کو انٹرٹینمنٹ فراہم کرپایا۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ فلم کی نمائش سے پہلے اس کا میوزک سپرہٹ ہوجاتا تھا اور پھر وہ فلم کو بھی ہٹ کروانے میں نمایاں کردار ادا کرتا تھا۔
’’تلاش‘‘ کے نام سے اس سے قبل تین اردو فلمیں بن چکی ہیں، جن کا مختصر تذکرہ کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ 1986ء میں فلم ساز و عکاس ریاض بخاری نے اس عنوان سے ایک فلم بنائی، جس کے ہدایت کار حسن عسکری تھے، اس فلم میں ندیم کے مدِ مقابل ترکی کی اداکارہ نازاں سانچی نے ہیروئن کا کردار کیا تھا۔ معروف ٹی وی اداکار شفیع محمد نے اس میں وِلن کا رول کیا تھا، جب کہ دیگر اداکاروں میں سنترا، سیماب، شہباز درانی، اور ادیب کے نام شامل تھے۔ ایم اشرف اس فلم کے موسیقار تھے۔
یہ فلم اوسط درجے کی رہی۔ ایک بھائی اپنی بہن کی عزت کے لیٹرے کی تلاش میں نکل جاتا ہے، یہی اس فلم کی ون لائن اسٹوری ہے۔ اس فلم سے قبل 1976ء میں پرویز ملک کی ڈائریکشن میں بننے والی بلاک بسٹر ڈائمنڈ جوبلی فلم ’’تلاش‘‘ اپنی کہانی، موضوع اور میوزک کی بدولت آج بھی آل ٹائم ہٹ فلم کے طور پر لوگوں کو یاد ہے۔ اس فلم کی کہانی تین بہنوں بانو، ثریا اور پروین کے گرد گھومتی ہے، جو ایک حادثے میں اپنے والدین سے بچھڑ جاتی ہیں۔ یہ تینوں کردار اپنے دور کی تین سپر اسٹار، شبنم، ممتاز اور بابرہ شریف نے ادا کیے، جب کہ ان کے والدین کے کردار علاؤ الدین اور نیر سلطانہ نے کیے تھے۔
اس قدر دل چسپ اور عمدہ کہانی اور منظرنامہ تھا کہ لوگ اس فلم کو کئی کئی بار دیکھنے جاتے تھے، خاص طور پر اس فلم کے نغمات جو آج بھی بے حد مقبول ہیں۔؎ دیکھا جو میرا جلوہ تو دل تھام لو گے، ؎پیار کی یاد نگاہوں میں بسائے رکھنا، کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ موسیقار نثار بزمی کی سُریلی دھنیں آج بھی سدا بہار ہیں۔ تلاس نام کی یہ سب سے کام یاب فلم تھی۔ اس فلم کی کاسٹ میں ندیم، اورنگزیب، مسعود اختر، ساقی، خالد سلیم موٹا، تمنا، ارسلان، راشد اور ادیب کے نام بھی شامل تھے۔
1963ء میں تلاش کے نام سے بننے والی پہلی فلم کے ہدایت کار مستفیض تھے، یہ سابقہ مشرقی پاکستان میں بنی تھی۔ جس میں شبنم اور رحمان نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اردو اور بنگلہ دونوں زبان میں یہ فلم ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی میں ایک خاندان آپس میں بچھڑ جاتا ہے۔ باپ حالات سے مجبور ہوکر سائیکل رکشہ چلاتا ہے اور اپنی بیوی اور بیٹے کو تلاش کرتا ہے۔ مزاحیہ اداکار سبھاش دتہ نے اس فلم میں سائیکل رکشہ چلانے والے ایک غریب آدمی کا کردار کچھ ایسے جذباتی اور فطری انداز میں کیا کہ ان کی کردار نگاری دیکھ کر سائیکل رکشہ چلانے والوں کا درد محسوس ہوتا ہے۔
فلم میں مشرقی پاکستان کے ہزاروں سائیکل رکشہ چلانے والے غریب مزدوروں کے مسائل کو پہلی بار اسکرین پر نہایت موثر انداز میں پیش کرکے ہدایت کار نے بڑی جرات کا عمل کیا۔ اسے ڈھاکا کی ابتدائی اردو فلموں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کراچی میں یہ فلم اپنے مین تھیٹر جوبلی پر سولو، سلور جوبلی منانے میں کام یاب رہی، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم کو گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل ہوا۔
روبن گھوش اس فسم کے موسیقار تھے، جن کی دُھنوں میں فلم کے چند نغمات بے حد مقبول ہوئے، جن میں ؎میں رکشہ والا متوالا، ؎کہیں نہ کہیں کبھی نہ کبھی، ؎کچھ اپنی کہئے کچھ میری سنئے، اپنے دور میں بے حد مقبول ہوئے تھے۔ شبنم اور رحمان کے علاوہ اس فلم میں وانی سرکار، اکبر، سبھاش دتہ، جلیل افغانی، نرگس، نارائن چکروتی، محفوظ اور شہنشاہ کے نام بھی شامل ہیں۔
لفظ تلاش پر بنائی گئیں اب تک چار اردو فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں، کسی ایک ہی نام سے بننے والی اردو زبان میں تلاش نامی فلموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تلاش 2019ء سے قبل ریلیز ہونے والی اس نام کی تین فلموں میں دو فلموں نے باکس آفس پر سپرہٹ کام یابی حاصل کی۔ ایک نے اوریج بزنس کیا، جب کہ حالیہ ریلیز ہونے والی تلاش نے فلم بینوں کو مایوس کیا۔
اس سے قبل بننے والی تلاش سیریز فلموں سے ہوئیں، حالاں کہ نئی فلم تلاش کو انٹرنیشنل سینما اسکرین میں کام یابیاں ملیں، لیکن کیا یہ فلم لوگوں کے ذہنوں پر اسی طرح اپنا نقش قائم کرنے میں کام یاب ہوگی، جس طرح اس نام سے بننے والی پچھلی فلموں نے قائم کیے۔