یہ اس زمانے کی بات ہے، جب پاکستانی سنگل اسکرین سینما دم توڑ رہا تھا، کیوں کہ فلم انڈسٹری ہی نہیں رہی تو سینما بھی قریب الختم تھا، لیکن بھارتی فلموں کی آمد نے ملٹی پلیکس سینما کی ضرورت کو جنم دیا۔ اُس وقت گِنے چُنے ملٹی پلیکسز موجود تھے، جن پر بالی وڈ فلمیں خوب روپیہ کما رہی تھیں۔ لاہور ساختہ فلموں کا مزاج، معیار اور میکنگ اس دوران اس قابل نہیں رہی تھی کہ اگر کوئی اِکا دُکا فلم وہاں سے تیار ہوکر آ بھی جاتی تو انہیں ملٹی پلیکس سینما مالکان لگانے میں پس و پیش سے کام لے رہے تھے۔
2010ء سے قبل شعیب منصور اور جیو نے ’’خدا کے لیے‘‘ اور مہرین جبار نے ’’رام چند پاکستانی‘‘ کی وساطت سے فلم میکنگ کا وہ میتھڈ متعارف کروا دیا تھا کہ جس کے تحت بننے والی پاکستانی فلم میں ملٹی پلیکس کی اسکرینز پر جگہ بنا سکتی تھیں، لیکن اس میتھڈ کو فوری طو پر کسی پاکستانی فلم میکر نے ایڈاپٹ نہیں کیا اور پاک فلم میکنگ کے میدان میں بدستور سناٹوں کا راج رہا۔ تاہم انڈین فلمیں برابر کام یاب بزنس کے ذریعے ملٹی پلیکس سینما انڈسٹری کی ترویج کا ماحول بناتی رہیں۔
پھر شعیب منصور ہی نے ’’بول‘‘ جیسی انقلاب آفرین موضوع کی حامل فلم جیو فلمز کی وساطت سے پیش کی تو اس کا موضوع کردار نگاری موسیقی اور اچھوتا ٹریٹمنٹ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھا کہ ہمارے ملک میں ایسے جواہر موجود ہیں، جو نئے عہد کے تقاضوں پر پورا اترنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ بول نے نہ صرف ملٹی پلیکسز پر شان دار بزنس کرتے ہوئے کئی مہینوں راج کیا، بلکہ بچے کچھے سنگل اسکرینز پر بھی عام اور حقیقی فلم بینوں کی جانب سے اسے فقید المثال پذیرائی ملی۔
کراچی کے سنگل اسکرین کیپری پر یہ فلم پورے تین مہینوں تک اوورکرائوڈ بزنس کے ساتھ زیر نمائش رہی، جب کہ ملٹی پلیکس سینما ایٹریم میں پانچ چھ ماہ تک جم کر بزنس کیا۔ ’’بول‘‘ کی کام یابی کے بعد کراچی کی فلم انڈسٹری متحرک ہوئی، جس کے نتیجے میں 2013ء میں متعدد فلمیں جو جدید تقاضوں کے عین مطابق بنائی گئی تھیں، ان میں جیو فلمز اور ہدایت کار اسماعیل جیلانی کی ’’چنبیلی‘‘، آمنہ الیاس کی فلم زندہ بھاگ کے علاوہ فلم وار، میں ہوں شاہد آفریدی… وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جو معیار اور باکس آفس دونوں ہی حوالوں سے بہترین نتائج کی حامل ثابت ہوئیں۔ اور یُوں پاکستانی فلموں کے لیے بھی ملٹی پلیکسز میں آہستہ آہستہ اسپیس پیدا ہونے لگا۔ دوسری جانب بالی وڈ فلمیں کروڑوں کا زرمبادلہ لے کر جارہی تھیں۔
پاکستان میں بھارتی فلموں کا حیران کن بزنس دیکھ کر وہاں کے فلم ڈسٹری بیوٹرز کی آنکھیں چار ہورہی تھیں، کیوں کہ یہاں وقت کے ساتھ ساتھ ملٹی پلیکس سینمائوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوا، جس سے آمدنی کا تناسب بھی بتدریج بڑھ رہا تھا۔ دریں اثناء پاکستانی فلموں کی میکنگ سالانہ20سے 30تک پہنچ گئی، جو ایک دوبارہ سنبھالا لیتی ہوئی فلم انڈسٹری کے حوالے سے ایک مناسب تعداد تھی، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان میں ہر سال 90فی صد تعداد ان فلموں کی ہوتی ہے، جو معیاری تو ہوتی ہیں، لیکن ان کی میکنگ اور مزاج فلمی نہیں ہوتا، جس کے سبب یہ کام یابی سے محروم رہتی ہیں یا پھر ان ہی میں سے کچھ فلمیں ایسی بھی ہوتی ہیں ۔ جو سرے سے معیاری ہی نہیں ہوتی۔ سو وہ بھی جلد ہی سینما خالی کر جاتی ہیں۔ اب 10یا 15فی صد فلمیں بھلا کب تک اور کتنے سینمائوں کو آباد رکھ سکتی ہیں۔
دوسری جانب 2019ء میں بھارت کی محدود پیمانے کی جنگی شرارت اور پاکستان کے ہاتھوں شرم ناک حزیمت کے نتیجے میں ان کی جانب سے بالی وڈ فلموں کی سپلائی روک دی گئی، جب کے سنگین کے اثرات پاکستان میں بڑی تعداد میں موجود ملٹی پلیکس سینمائوں کے بزنس پر مرتب ہوئے۔ اور وہاں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال دیے۔ پچھلے 10مہینوں میں پاکستانی ساختہ 22-20 فلموں میں سے باجی، رانگ نمبر2، سپر اسٹار، پرے ہٹ لو، چھلاوہ اور ہیر مان جا… یعنی کل چھ فلمیں ایسی تھیں کہ جنہوں نے ملٹی پلیکس سینماؤں کی ویرانیوں کو کچھ وقت کے لیے کم کیا یا چند ہالی وڈ موویز تھیں کہ جنہیں دیکھنے کے لیے لوگ گھروں سے نکلے، لیکن مجموعی طور پر ملٹی پلیکس سینما انڈسٹری کے لیے پچھلے دس مہینے خاصے حوصلہ شکن ثابت ہوئے اور اس کا محض واحد سبب بھارتی فلموں کی عدم موجودگی ہی نہیں، بلکہ ملٹی پلیکسز سینماؤں کے ہوش ربا ٹکٹ ریٹس بھی ہیں، جو 600 سے شروع ہوکر 1200 اور 1500 تک ہیں۔ 1200 اور 1500 کو چھوڑیے اور یہ سوچیے کہ پاکستان جیسا پسماندہ ملک، جہاں 90فی صد آبادی ورکنگ کلاس پر مشتمل ہے، جس کے لیے 600روپے کا ٹکٹ خرید کر فلم دیکھنا… جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
پھر بھلا کیسے وہ ان مہنگے سینمائوں کا رُخ کرنے کی ہمت اور جسارت کرسکتے ہیں۔ 2010ء تک باقی ماندہ سینماؤں سنگل اسکرین کے ٹکٹ ریٹس نہایت اعتدال پر تھے،لیکن جب ملٹی پلیکس سینمائوں کی تعداد بڑھی اور فلمیں HD فارمیٹ پر شوٹ کی جانے لگیں تو بیش تر سنگل اسکرین سنیماؤں نے بھی نئی ضرورت کے تحت HDسسٹم کی تنصیب کروائی، لیکن ملٹی پلیکس کے ٹکٹ ریٹس کو پیش نظر رکھتے ہوئے، انہوں نے بھی ٹکٹوں کی قیمت میں 3سے 5گنا تک اضافہ کردیا۔
ماضی میں چوں کہ سینمائوں کے ٹکٹ نرخ، ایک غریب سے غریب تر آدمی کی قوت خرید میں ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا معیاری فلموں کو لوگ بار بار سینما جاکر دیکھا کرتے تھے، جب کہ نسبتاً ہلکی کاسٹ یا کمزور رپورٹ کی حامل فلم کو بھی ہر فلم بین کم از کم ایک بار ضرور دیکھ لیا کرتا تھا، کیوں کہ ٹکٹ ریٹ کا کوئی ایشو نہیں تھا۔
یہی وجہ تھی کہ 1000 یا 800سیٹوں کے حامل سینماؤں میں بھی سپرہٹ فلمیں ایک ایک سال تک زیر نمائش رہتی تھیں۔ جب کہ ہٹ فلم بھی چار چھ مہینے بآسانی نکال لیا کرتی تھیں، لیکن مہنگے ترین ملٹی پلیکس اور سنگل اسکرین سینماؤں کے بھی حد سے مہنگے ٹکٹ اور معیاری فلموں کے فقدان اور بھارتی فلموں کی عدم موجودگی نے ایک بار پھر سینما انڈسٹری میں بُحرانی کیفیت پیدا کردی ہے۔
اگر حقیقت پسندی سے حالات کا جائزہ لیا جائے تو آثار یہی بتاتے ہیں کہ بھارت کا جارحانہ رویہ کبھی ان کی فلموں کو پاکستان میں بحال نہیں ہونے دے گا اور ہمارے عوام کی اکثریت ملٹی پلیکس سینمائوں کو افورڈ نہیں کرسکتے اور خاص طبقہ اسے افورڈ کرسکتا ہے۔ وہ صرف چیدہ فلمیں ہی دیکھتا ہے۔ ہلکی کاسٹ اور Bکلاس فلموں کو ملٹی پلیکس سینمائوں سے چند شوز کے بعد ہی فارغ کردیا جاتا ہے۔
لہٰذا اب نئی صورت حال کے تقاضا یہ ہے کہ پھر سے سنگل اسکرین سینما کلچر کو فروغ دیا جائے، لیکن اس کے بھی ٹکٹ نرخوں کو ایک عام آدمی کی قوت خرید تک لانا ناگزیر ہے۔ ساتھ ساتھ کم لاگت سے اچھے اور مضبوط اسکرپٹ ، معیاری میوزک اور عمدہ پرفارمنس کی حامل فلمیں تخلیق کی جائیں۔ سینما انڈسٹری سے جڑی شخصیات کو اب اس سچائی کا ادراک کرنا ہوگا کہ بھارتی فلموں کی بحالی کا انتظار کرنے کے بجائے نئے حالات کے پیش نظر سستا سنگل اسکرین سینما کلچر کی بحالی کا اہتمام کیا جائے، جو بچے کچھے سنگل اسکرین سینما ہاؤسز ہیں، انہیں اپ گریڈ کرکے HDفارمیٹ پر لایا جائے۔
مزید نئے سنگل اسکرین بتدریج تعمیر کیے جائیں اور ان کے ٹکٹ ریٹس کا معقول سطح پر تعین کیا جائے۔ دوسری جانب کم بجٹ کی معیاری فلمیں جو حقیقتاً فلم کی ہیئت میں ہوں۔ ان پر ٹیلی فلم یا ٹی وی ڈرامے کا گمان نہ گزرے۔