• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی جی اور حکومت سندھ کے درمیان اختلافات کی ایک اور وجہ سامنے آگئی

آئی جی اور حکومت سندھ کے درمیان اختلافات کی ایک اور وجہ سامنے آگئی


انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ اور صوبائی حکومت کے درمیان اختلافات کی ایک اور وجہ سامنے آگئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی نے سندھ حکومت کو گریڈ 17 سے لے کر 21 تک کے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی جن میں سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سے لے کر ایڈیشنل آئی جی تک کے افسران شامل تھے۔

ذرائع نے بتایا کہ جن افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ان میں سندھ حکومت کے منظورِ نظر افسران بھی شامل تھے۔

آئی جی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی غلام سرور جمالی کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی تھی۔

اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ حیدرآباد میں غلام سرور جمالی کی اسپیشل پارٹی، پولیس کے متوازی نظام چلاتی رہی ہے۔

علاوہ ازیں آئی جی نے گریڈ 19 کے 7 اور گریڈ 18 کے 12 افسران کیخلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔

کارروائی کی سفارش کے ہمراہ ان پر عائد الزامات کی تفصیلات بھی سندھ حکومت کو بھیجی گئی تھیں۔

آئی جی سندھ نے سابق اے آئی جی تنویر احمد طاہر کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جنہیں احتساب عدالت نے کرپشن پر قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ڈی آئی جی ذوالفقار علی شاہ کے خلاف بھی آئی جی سندھ نے کارروائی کی سفارش کی تھی۔

گریڈ 19 کے پولیس افسر فیصل بشیر میمن کے خلاف بھی نیب انکوائری کی وجہ سے آئی جی سندھ نے کارروائی کی سفارش کی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ ایس ایس پی فدا حسین شاہ پر غیرقانونی بھرتیوں کا الزام ہے، جنہیں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کمیٹی نے ذمے دار قرار دیا تھا۔

دیگر افسران میں ایس ایس پی کامران راشد، اعجاز ہاشمی، غلام مرتضیٰ بھٹو، ایس ایس پی خالد مصطفیٰ کورائی، ایس پی عمرکوٹ اعجاز شیخ اور سید علی آصف بھی شامل ہیں۔

آئی جی سندھ نے ایس پی عمران ریاض، عثمان غنی، ایس ایس پی الطاف لغاری اور ایس ایس پی غلام سرور ابڑو، ایس ایس پی جاوید بلوچ، فاروق اعظم، نثار چنہ، اے ایس پی کاشف الطاف عباسی، ایس ایس پی اعتزاز گورایہ کا نام بھی سندھ حکومت کو کارروائی کرنے کے لیے ارسال کیا تھا۔

تازہ ترین