• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ عشروں کے دوران صنفی مساوات بڑھانے کے لیے دنیا بھر میں بہت کام کیا گیا ہے۔ ان شعبہ جات میں غربت میں کمی، مدافعتی ٹیکے لگانا اور متوقع عمر میں اضافہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ شعبہ جات ایسے بھی ہیں جہاں صنفی مساوات کے حصول کے لیے ہونے والی پیش رفت انتہائی سست رہی ہے، جس میں تعلیم بھی شامل ہے۔ 

ہرچند کہ ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز (MDGs)کے بعد پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs)میں بھی ’تعلیم سب کے لیے‘ پر زور دیا گیا ہے۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں اسکول نہ جانے والی لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ آخر تعلیم کے میدان میں اس عدم مساوات کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا اس حوالے سے کسی مثبت پیشرفت کی بھی کوئی امید ہے؟

یونیسکو گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ (GEM) کی 2019ء میں شائع ہونے والی جینڈر رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2016ء کے دوران اوسط سے کچھ بہتر آمدنی والے (اَپر- مڈل اِنکم) ملکوں میں ناخواندہ خواتین کی تعداد میں 4کروڑ 20لاکھ کی کمی ہوئی۔ زیادہ تر ملکوں میں اسکول انرولمنٹ میں بہتری کا ایک مطلب یہ ہے کہ امیر ملکوں کو اس کے برعکس چیلنج کا سامنا ہے، یعنی لڑکیوں کے مقابلے میں کم لڑکے ثانوی تعلیم (سیکنڈری ایجوکیشن) مکمل کررہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، ’تعلیم سب کے لیے‘ کے نعرے کو حقیقت بنانے کے لیے دنیا بھر کے پالیسی سازوں کا یہ لائحہ عمل غلط ہے، جس کے تحت دنیا بھر میں تعلیم کے میدان میں صرف صنفی مساوات کے حصول کو ہی ہدف بنایا گیا ہے کہ اسکول میں داخل ہونے والے لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد برابر ہو۔ بلاشبہ، دنیا کے کئی غریب ترین ملکوں میں لڑکیوں کو اسکول میں داخل کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ’ٹارگٹڈ‘ اقدام لینے کی ضرورت ہے۔ 

ماہرین کے مطابق، اس سلسلے میں سب سے اہم قدم جو حکومتیں اٹھاسکتی ہیں وہ ’گھر سے اسکول تک لڑکیوں کے سفر کو محفوظ بنانا‘ ہے۔ دنیا کے وہ 20ممالک جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میں بہت فرق پایا جاتا ہے، ان میں سے افریقہ کے کچھ ملکوں جیسے نائیجر اور صومالیہ نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے اور وہاں اس کے مثبت نتائج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اسکول میں داخلہ حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں مساوات حاصل کرنا محض ابتدا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ بنیادی وجوہات پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کم آمدنی والے ملکوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہاں اسکولوں میں کیا ہوتا ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کو کیا مواقع حاصل ہوتے ہیں، ان دونوں باتوں کا تعلق سماجی رویوں اور صنف سے ہے۔ 

دنیا بھر میں لڑکیوں اور خواتین کو یہی پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کا بنیادی کام ’اپنے خاندان کا خیال رکھنا‘ ہوتا ہے۔ 2010ء سے 2014ء کے دوران دنیا کے 51ملکوں میں کیے جانے والے ’ورلڈ ویلیوز سروے‘ میں اس جملے کے جواب میںکہ ’جب کوئی خاتون تنخواہ کے لیے کام کرتی ہے تو اس سے بچوں کی پرورش متاثر ہوتی ہے‘ 50فیصد جواب دینے والوں نے یا تو ’اتفاق‘ کیا یا پھر ’بھرپور اتفاق‘ کیا۔

ان تصورات کی موجودگی میں خاندانوں اور کمیونٹیز سے یہ توقع رکھنا مشکل ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کو اپنی ’انتہائی ترجیحات‘ میں شامل رکھیں۔ یہی پیغام اسکولوں میں بھی دیا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں میں صنفی کرداروں سے متعلق روایتی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں، جہاں خواتین کے تاریخی کردار کو منہا کردیا جاتا ہے۔ ہرچندکہ زیادہ تر اسکول ٹیچر خواتین ہیں لیکن اسکولوں میں قائدانہ کردار مردوں کا ہی ہوتا ہے۔ 

ایسے میں یہ بات زیادہ حیران کن نہیں کہ وہ لڑکیاں جو تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں، وہ بھی کیریئر کے طور پر ان پیشوں کا زیادہ انتخاب کرتی ہیں جو کہ ان کے صنفی مزاج کے زیادہ قریب تصور کیے جاتے ہیں، ان میں گھر اور دوسروں کا خیال رکھنے کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ انجینئرنگ، مینوفیکچرنگ، تعمیرات اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے پروگراموں میں خواتین کی شرح بمشکل ایک تہائی سے کچھ ہی زیادہ ہوتی ہے۔

جب صنفی بنیادوں پر اس طرح کی توقعات ہمارے رویوں میں شامل ہوجاتی ہیں تو اس کے بعد سماجی طور پر بھی خواتین کا کردار ’ہر بات کو قبول کرنے‘ والا بن جاتا ہے، پھر چاہے کم عمری میں شادی ہو (اور شادی کے بعد جلد ہی حاملہ ہونا)، گھریلو کام کاج ہو یا پھر جنسی تشدد ، لڑکیوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ان سب حالات کو قبول کرلیں گی۔

ایک سروے کے مطابق، کم از کم 117ملکوں اور خطوں میں اب بھی کم عمری کی شادیوں کی اجازت ہے۔ افریقہ کے کم از کم 4ممالک حاملہ ہونے کے دوران یا اس کے بعد لڑکیوں کو اسکول واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دیتے۔ زیادہ تر ملکوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے گھریلو کام کاج کی طرف مائل ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

جب زیادہ سے زیادہ خواتین کام کرنے والی افرادی قوت میں شامل ہوتی ہیں تو ملکوں کی معیشتیں زیادہ تیزی سے ترقی کرتی ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین ہی اپنے خاندان، اپنے ملک اور پھر دنیا کی معیشت کو ترقی دینے میں بہتر اور مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں۔ مثلاً، ’او ای سی ڈی‘ ممالک، خواتین کے روزگار کی شرح کو سویڈن کے برابر لاکر اپنی معیشتوں میں چھ ٹریلین ڈالر کا خطیر اضافہ کرسکتے ہیں۔ 

اسی طرح اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر ملازمتوں کے مواقع فراہم کرکے عالمی معیشت کے حجم میں15فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ’او ای سی ڈی‘ ممالک پہلے ہی خواتین کی تعلیم کے مؤثر نتائج دیکھ چکے ہیں، جو گزشتہ 50برس کے دوران، خواتین کو تعلیم کے بہتر مواقع فراہم کرکے اپنی معاشی نمو میں 50فیصد اضافہ کرچکے ہیں۔

یہ تمام حالات، لڑکیوں کو معاشی، سماجی اور جسمانی طور پر غیرمحفوظ بنادیتے ہیں۔ اگر ہم لڑکیوں کے حقوق کو تحفظ دینا چاہتے ہیں بشمول تعلیم کا حق، تو ہمیں اجتماعی طور پر صنفی تعصب کو فروغ دینے والی پالیسیوں کو بدلنا ہوگا۔

تازہ ترین