سائنس داں توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اب تک توانائی حاصل کرنے کے متعدد طریقے آزما چکے ہیں۔جن میں سےکچھ کے کامیاب تجربات کیے جاچکے ہیں اور ان کے نتائج بھی کافی اچھے حاصل ہوئے ہیں۔ ان میں سےچند طر یقوں کے بارے میں ذیل میں بتایا جارہا ہے ۔
سمندر،گرم چٹانوں،مائیکروب،نیوکلئیر فیوژن، ہائیڈروجن،مصنوعی پتیوں وغیرہ کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے سائنس دان دن رات کوشاں ہیں
سمندروں سے حرارتی توانائی کا حصول
سطح سمندر پر پانی کا درجۂ حرارت زیادہ ہوتا ہے جب کہ گہرائی میں جاکر یہ ٹھنڈا ہو جا تا ہے ۔ درجہ ٔحرارت کے اس فرق کو بجلی بنانے کے لئے Ocean Thermal Energy Conversion (O.T.E.C) کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اس ٹیکنالوجی میں درجۂ حرارت کے تبادلےکے ذریعے سطح سمندر کے گرم پانی کو پمپ کیا جا تا ہے ۔ یہ حرارت کم درجۂ حرارت پر نقطۂ ابال کے حامل مایع مثلاً امونیا کو بخارات میں تبدیل کرنے اور بخارات میں تبدیل شدہ یہ ،گیس ٹربائن چلانے کے لئے استعمال ہوتی ہے اور اس سے بجلی تیار کی جاتی ہے ۔امونیا گیس کو ایک کنڈنسرسے ملایا جا تا ہے جوکہ سمندر کی گہرائی سے پمپ کئے جانے والے ٹھنڈے پانی کی مدد سے ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے اور پھر گیس مایع میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔
اس چکر کو مایع امونیا کی سطح پر پمپ کرتے ہوئے دہرایا جا تا ہے جہاں سے گرم پانی پرمبنی Heat Exchangerاس کو بخارات میںتبدیل کردیتا ہے ۔ سطح کے پانی اور سمندر کی گہرائی میں موجود پانی کے درمیان 20 ڈگری 86سیلسیس ڈگری فارن ہائٹ درجہ ٔحرارت کا فرق ہوتا ہے جوکہ سمندروں میں عام طور پر پایاجاتا ہے ۔اضافی ڈگری کا فرق توانائی کی پیداوار میں 15فی صداضافے کا سبب بنتا ہے ۔اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے چوبیس گھنٹے مستحکم ، مسلسل اور قابل اعتماد توانائی فراہم کی جاسکتی ہے جب کہ ہوا یا شمسی توانائی کا انحصار موسموں کی تبدیلی پر ہوتا ہے ۔
گرم چٹانوں سے حاصل ہونے والی توانائی
Cornwallبرطانیہ میں گرم چٹانوں سے توانائی کے حصول کے منصوبے پر غور کیا جارہا ہے یہ چٹانیں 150oCسے زائد حرارت کا اخراج کرتی ہیں ۔3 میگاواٹ کا کمرشل تھرمل توانائی کا پلانٹ زمین کی سطح سے3 سے 5کلومیٹر اندر سے حرارت کو جذب کرے گا ۔ اس منصوبے میں پہلے زمین کے اندر ایک سوراخ کیا جائے گا اور پھر زیادہ دبائو پر اس سوراخ میں پانی پھینکا جائے گا۔
اس سے گرم چٹانوں ( Hot Rocks)میںچھوٹے چھوٹے شگاف پڑجائیں گے اور چٹان نہ صرف پھیل جائے گی بلکہ اس میں باریک نالیوں کا ایک جال بن جائے گا ان باریک نالیوں کے جال سے گزر نے والی بھاپ کو ٹربائن چلا نے کے لئے استعمال کیا جا ئے گا جوکہ بجلی پیدا کرنے کے کام آئیں گے ۔ اس ٹیکنالوجی پر مبنی ایک تجارتی منصوبہ جرمنی میں کام کر رہا ہے ۔
مائیکروب سے ایندھن کا حصول
فوسل فیول یا معدنی تیل کی محدود مقدار کی وجہ سے سائنس دانوں نے حیاتیاتی ایندھن ( بائیو فیول ) کی تیاری کی طرف توجہ دی ہے جو کہ آپ کی کاریں یا جنریٹر چلانے کے کام آسکے ۔ ان بائیو فیول کے لئے پودوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پودے قابل کاشت زمین اور تازہ پانی کے استعمال کے محتاج ہوتے ہیں۔ چناں چہ ان کو دوسری نقد آور فصلوں سے مقابلہ کا سامنا ہوتا ہے دوسری نسل کا بائیو فیول الجی سے تیار کیا جا تا ہے ۔ الجی سادہ نامیاتی اجسام ہوتے ہیں جو کہ ایک خلوی یاکثیر خلوی ہو سکتے ہیں ۔ (مثلاًسمندری جھاڑیاں) زیادہ تیل کی حامل الجی کوبرتن میں اُگایا جا سکتا ہے اور پھر ان سے بائیو فیول جزونکالا جا سکتا ہے ۔
شعائی تالیف کے عمل میں الجی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سورج کی روشنی اپنے اندر جذب کرکے بائیو ماس ،( جس میں قیمتی تیل بھی شامل ہے ) اور آکسیجن خارج کرتی ہے ۔ الجی سے حاصل ہونے والا بائیو فیول معدنی تیل کے مقابلے میں کافی مہنگا ہے ۔ اس کی لاگت کو کم کرنے کے لئے تیزی سے نموپا نے اور زیادہمقدار میں پیداوار کے لئے مسلسل تحقیق کی جا رہی ہے ۔بائیوفیول کے حصول میں آنے والی لاگت میں اہم حصہ قیمتی تیل کے نکالنے کے عمل میں آنے والی لاگت ہے ۔ ایری زونا اسٹیٹ یو نیو رسٹی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک سبزنیلگوںالجی تیار کرکے اس مسئلے کے حل تک پہنچنے کی کوشش کی ہے ۔
یہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ الجی ہے، جس میں اس طرح ترمیم کی گئی ہے کہ یہ ایک خلوی نامیا تی اجسام خود تخریب کا شکار ہوجاتے ہیں اور تیل خارج کردیتے ہیں اب وہ اس پر مزید کام کر رہے ہیں کہ اس نامیاتی جسم (آرگینزم)کو خودتخریبی کی ضرورت نہ پڑے جیسے ہی اس میںتیل پیدا ہو ان کے خلیات سے خود بخود باہر آنا شرو ع کردے اور تیل تیزی سے جمع کرلیا جائے۔
پیٹرول کے استعمال کے نئے طریقے
سائنس داں گاڑیوں میں پیٹرول کے استعمال کو کم کرنے کے لئے مختلف طریقے ایجاد کر رہے ہیں ۔ جب آپ کسی اونچی نیچی سڑک سے گزرتے ہیں تو آپ کی گاڑی میں لگے Shock obserbersجھٹکوں کو جذب کرلیتے ہیں اور آپ کا سفر پر سکون اور ہموار ہو جاتا ہے مگراس میں توانائی ضایع ہوجاتی ہے ۔امریکی کمپنی Levant Power Of Boston نے اس طاقت کو بجلی کی طاقت میں تبدیل کرنے کا نظام تیار کیا ہے جوکہ بیٹری چارج کرنے اور دوسرے مقصدکے لئے استعمال کی جاسکتی ہے ۔
یہ نظام ایندھن کی 5فی صد بچت کر سکے گا۔نیدرلینڈ کی ایک اور کمپنی E-Tractionنے بھاری ٹرکوں کے پچھلے حصوںمیں ایک موٹر نصب کی ہے جوکہ بھاری ٹرانسمیشن اور گیئرنگ کے عمل کو کم کرتا ہے جوکہ کافی توانائی خرچ کرتے ہیں اس کے نتیجے میں ایندھن کی 40 فی صد تک بچت ہوتی ہے ۔ ایک اور طریقے میں ٹرکوں کے پچھلی جانب گول پر لگائے جاتے ہیں جوکہ ایندھن کے خرچ میں بہتر Aerodynamicsکی وجہ سے 6فی صدتک کمی کرتے ہیں امریکا اور برطانیہ میں کئی تجارتی ادارے انجن سے خارج ہونے والی حرارت کو دوبارہ استعمال کرکے بجلی بنا رہے ہیں۔ اس سے ایندھن کی قابل ذکر مقدار کی بچت ہورہی ہے۔
نیوکلئیر فیوژنلا محدود توانائی کی جستجو
ستارے جس میں ہمارا سورج بھی شامل ہے نیو کلئیر فیو ژن کے ذریعے توانائی پیدا کرتے ہیں اس عمل میں دویا اس سے زائد ایٹمی نیو کلیائی (مثلاً ہائیڈروجن ) ایک دوسرے سے مل کرایک نیابھاری ایٹم (مثلاً ہائیڈروجن )بناتے ہیں۔
اس عمل میں توانائی کی بڑی مقدار پیدا ہوتی ہے یہ سورج پر وقوع پذیر ہونے والا نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن ہے جوہمارے کرہ ٔا رض کو گرم رکھتا ہے اور جس کی وجہ سے یہاںزندگی قائم ہے ۔لارنس لیور مور نیشنل لیبارٹری کے National Ignition Faculty (NIF)مرکزامریکامیںایک بہت بڑی لیزر موجود ہے ، جس کی جسامت تین فٹ بال گرائونڈ کے برابرہوگی۔ اس میں سورج پر وقوع پزیر ہونے والے عمل کی نقل کی جائے گی ۔ یہ ہائیڈروجن کی دوشکلوں (آئسوٹوپ)…(ڈیوٹریم اور ٹر یٹئم) کو جوڑے گی ۔ ایک بڑی لیزر شعاع اس کو آگے اور پیچھے سےتقریباً1 میل کے فاصلے پر دھکا دینے سے چارج ہوگی۔
بعدازاں یہ 192 شعاعوں میں تقسیم ہوجائے گی اور ایک مرتکز اندازسے ایک چھوٹے سے نکتے پرمرکوزہوگی ،جس میں ڈیوٹریم اور ٹرٹئیم ہوںگے ۔ ان مرتکزشعاعوں سے چارج ہونے والا درجۂ حرارت 100ملین ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوگا جوکہ سورج سے بھی گرم ہے، اس کے ساتھ ہی 100 بلین فضائی دبائو پیدا ہوگا۔اس کے نتیجے میںہونے والے فیوژن ری ایکشن کو لیزر سے فراہم کی جانے والی توانائی کی نسبت کئی گنا مزید،توانائی خارج کرنی چاہیے۔ اگر اس نے عملی طور پر کام کرنا شروع کردیا تو سمندری پانی جوکہ ہائیڈروجن اور اس کے آئسوٹوپ کا اہم ذریعہ ہے۔
ہمارے کرۂ ا رض پر توانائی کا سب سے اہم ماخذ بن جائے گا۔مستقبل میںہر ملک میں ہزاروں چھوٹے چھوٹے سورج کی تخلیق عمل میں آئے گی اور یہاںسے قومی گرڈ اسٹیشن کو بجلی فراہم کی جائے گی اور پھر یہ ہمارے کر ۂ ا رض کے توانائی کے موجودہ ماخذمعدنی تیل کو تبدیل کرکے اس کی جگہ لے لے گا۔
نیا ہائیڈروجنی ایندھن …معدنی تیل سے سستا
سائنس داںمتبادل ایندھن کے حوالے سےبہت تحقیقات کرچکے ہیں اب اس کے بہترین نتائج سامنے آرہے ہیں ۔بر طانیہ کی انر جی کمپنی Cella نے ایک با لکل نئے قسم کے ایندھن کا اعلان کیا ہے، جو کہ ہائیڈروجن پر مبنی ہے ۔مایع ہائیڈروجن مخصوص توانائی کی کثافت پر شاندار ایندھن ہے، جس کی توانائی کثافت بہت کم (تقریباً43میگا جول فی کلوگرام )ہے۔ تاہم مایع ہائیڈروجن کو -253oCپر ذخیرہ کرنا ضروری ہے۔
یہ توانائی ایک ہوا کے سلینڈرکو بھر نے میں استعمال ہوسکتی ہے اور یہ انجن کی طاقت کو سہارا بھی فراہم کر سکتی ہے، جس کے نتیجے میں ایندھن کی بچت ہوگی ۔اس قسم کے ہوائی Pneumaticنظام گاڑیوں میں لگائے جا سکتے ہیں ، تا کہ جب گاڑی کو آگے دھکا دینے کے لئے انجن کی طاقت کی ضرورت ہو تو ایسے میں انجن گاڑی کے منفی اسراع کے عمل میں ہوا کو دبانے کا کام انجام دے ۔اسی طرح بریک لگانے کے عمل میں خرچ کی جانے والی توانائی ایک ہوا کے کمپریسر میں جمع کی جا سکتی ہے اور اس کو بعد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس قسم کا ہوا مخلوط نظام گیسولین ، ڈیزل اور قدرتی گیس سے چلنے والے انجن میں کام کر سکتا ہے اور برقی مخلوط نظام کے مقابلے میں کافی سستا ہوگا ،کیوں موخر الذکرمیں مہنگے بیٹری پیک کی ضرورت ہوتی ہے۔ Lundیونیورسٹی سویڈن میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے اس قسم کے ابتدائی نمونے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔اس تجربے میں شہروں میں 20فی صدتک ایندھن کی بچت کے ساتھ بسیں چلا کر دکھائی ان بسوں میں انجن کے ساتھ ہوائی کمپریسر نصب تھے۔ یہ ٹیکنالوجی آہستہ اورجھٹکے دارڈرائیونگ میں زیادہ کارآمد ہے ۔
بجلی بنانے والے اسٹریٹ لیمپ
اسٹریٹ لیمپ کو ہمیشہ بجلی استعمال کرنے کے حوالے سے جانا جا تا ہے۔ Aarhusمیں واقعScotia،ڈنمارک میں نئے قسم کے اسٹریٹ لیمپ بنائے گئے ہیں جو دن کے وقت سورج کی روشنی سے بجلی تیار کریں گے اور یہ بجلی قومی گرڈ کو فراہم کی جائے گی یہ لیمپ Photo Voltaicسولر سیل سے ڈھکے ہوتے ہیں،تا کہ ان کو زیادہ سے زیادہ سطحی رقبہ حاصل رہے،نیز یہ شمسی سیل بادلوں والے موسم میں بھی بجلی بنا سکتے ہیں یہ اسٹریٹ لیمپ جتنی بجلی استعمال کرتے ہیں اس سے کہی زیادہ بجلی تیار کرتے ہیں اور انہیں اس لحاظ سے ماحول دوست بھی سمجھا جا تا ہے۔
فیول کا فائدہ یہ ہے کہ یہ مائیکروب کی شکل میں ہے، جس میں مخلوط مرکبات ہوتے ہیں اور اس کو نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے تیا رکیا جاتا ہے ۔کار کے انجن میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی اور عام پیٹرول پمپ سے نئے قسم کا فیول بھرا جا سکتا ہے ۔ماہرین کے مطابق مصنوعی فیول بہت زیادہ خفیہ منصوبے کے تحت تیا رکیا گیا تھا،جس میں آکسفورڈ کےقریب واقع رتھر فورڈاپلی ٹون لیبارٹری میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے کام کیا تھا۔ اس میں متوقع لاگت 5ڈالر فی گیلن ہے ۔
مصنوعی پتیاں
بعض مخصوص الجی اور بیکٹیریا کی مختلف انواع شعاعی تالیف کا عمل انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ شعاعی تالیف کے عمل میں فضامیں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ مختلف نامیاتی مرکبات مثلاًشکر میں سورج کی روشنی سے حاصل کردہ توانائی کو استعمال کرتے ہوئے تبدیل ہوتی ہے ۔اس عمل کے ذیلی مرکب کے طور پر آکسیجن کا اخراج ہوتا ہے، اس عمل کے ذریعے فضا میںآکسیجن کی سطح برقرار رہتی ہے اور فضاء سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کم ہوتی رہتی ہے اس سے عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ کا عمل سست پڑجاتا ہے۔
شعاعی تالیف کے عمل میں استعمال ہونے والی توانائی کی مقدار 100 ٹیرا واٹ سالانہ ہے جو ہمارے کرۂ ارض پر استعمال ہونے والی کل توانائی کے استعمال سے 6گنا زیادہ ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے سائنس دان مصنوعی پتیاں تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیںیہ ایسی ڈیوائس ہوگی جو سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہوئے پانی کو اس کے بنیادی عنا صر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں توڑدے گی ۔ اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہائیڈروجن کو فیول Cellمیں ذخیرہ کر لیا جائے گااور اس کو توانائی کی پیدا وار میں استعمال کیا جائے گا ۔ ایم۔آئی۔
ٹی کے پروفیسرNoceraاور ان کے ساتھیوں نے ایک مواد تیار کیا ہے، جو درخت کے پتوں سے بھی پتلا ہے اور اس میں سستے عمل انگیز کا ایک جوڑا استعمال کیا گیا ہے ۔نکل بوریٹ کو کوبالٹ کے مرکب کے ساتھ سیلیکون الیکٹرونک سسٹم پر استعمال کیا جاتا ہے جب اس پتی کو ایک گیلن پانی میں سورج کی روشنی کی موجودگی میں ڈالا جا تا ہے اور اس کو فیول سیل سے جوڑ دیا جاتا ہے تو یہ اس قدر توانائی فراہم کرتاہے کہ اس سے ترقی پزیر ممالک کے ایک عام گھر کی بجلی کی ضرورت با آسانی پوری ہوسکتی ہے ۔ یہ مواد قدرتی پتی کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ توانائی پیدا کرسکتا ہے ۔