ایک دور وہ بھی تھا، جب فن کار اپنی منزل کی تلاش میں سیدھا لاہور کا رُخ کرتے تھے۔ اس زمانے میں لاہور تھیٹر، ٹی وی اور فلموں کا مرکز کہلاتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ فلم انڈسٹری بُحران کا شکار ہوئی تو پنجاب اور دیگر صوبے سے تعلق رکھنے والے فن کاروں نے کراچی کا رُخ کرنا شروع کردیا اور اس طرح کراچی شوبزنس انڈسٹری کا حَب بن گیا۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ لاہور اور اسلام آباد کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے فن کی دنیا میں اپنا کیرئیر بنانے کے لیے روشنیوں کے شہر میں آکر ڈیرے ڈال لیے اور انہیں اس سلسلے میں غیرمعمولی کام یابی بھی حاصل ہوئی۔
نئی نسل سے تعلق رکھنے والی، تھیٹر، ٹی وی اور فلموں کی ابھرتی ہوئی اداکارہ، ہاجرہ یامین کا تعلق دارالحکومت اسلام آباد سے ہے، لیکن وہ شوبزنس میں اپنا مستقبل بنانے کے لیے کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے کا جنون انہیں کراچی لے آیا۔ ہاجرہ یامین نے اپنے فنی سفر کی ابتداء انور مقصود جیسے منجھے ہوئے ڈراما نگار کی سرپرستی میں کی۔ انور مقصود کے مقبول تھیٹر ’’سیاچن‘‘ میں ہاجرہ یامین نے شان دار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔
چند برس تھیٹر پر اداکاری کے کمالات دکھانے کے بعد وہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی جانب آگئیں۔ ہاجرہ یامین کے قابل ذکر ٹی وی ڈراموں میں بنجارن، بھولی بانو، تو دِل کا کیا ہوا، تیری رضا، باندی، تعبیر اور شہرِ ملال شامل ہیں۔ حال ہی میں آئی ایس پی آر کی مقبول ڈراما سیریل’’عہدِ وفا‘‘میں ناظرین، انہیں احد رضا میر، خالد عثمان بٹ اور احمد علی اکبر کے مدمقابل اداکاری کرتے دیکھ رہے ہیں اور ان کی اداکاری کو سراہا جارہا ہے۔
ہاجرہ یامین نے تھیٹر اور ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کے بعد فلموں میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں فلموں میں جیو کے مقبول ڈرامے ’’خانی‘‘ کی ڈراما نگار اسما نبیل نے اپنی پروڈیوس کردہ فلم ’’مان جاؤ نہ‘‘ میں سپورٹنگ رول کے لیے کاسٹ کیا۔ بعدازاں معروف ہدایت کارہ شازیہ علی خان نے انہیں فلم ’’پنکی میم صاحب‘‘ میں دل چسپ کردار کے لیے کاسٹ کیا۔ گزشتہ دنوں ہم نے شوخ و چنچل اداکارہ، ہاجرہ یامین سے گفتگو کی، جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
س:۔ آپ اپنےخاندان کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج:۔ میرے والد سعودی ائیر لائنز میں جاب کرتے تھے۔ اب ریٹائرڈ زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس لیے میرا وقت سعودی عرب میں بھی گزرا۔ ہم ایک بھائی اور پانچ بہنیں ہیں۔ میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہوں۔
س:۔ تعلیم کہاں تک حاصل کی؟
ج:۔ 2000ء میں ہم لوگ سعودی عرب سے پاکستان شفٹ ہوئے۔ روٹس سے او لیول کیا۔ فاطمہ جناح ویمن یونی ورسٹی اسلام آباد سے کمیونی کیشن میں گریجویشن کیا، جب میں یونی ورسٹی میں زیر تعلیم تھی تو تھیٹر پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ 2011ء سے نان اسٹاپ تھیٹر چل رہا ہے۔ شو بزنس کی مصروفیات کی وجہ سےماسٹرز کرنے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔
س:۔ کراچی میں آپ اکیلی رہتی ہیں، امی ابو کو آپ کی فکر تو بہت رہتی ہوگی؟
ج:۔ میں آتی جاتی رہتی ہوں۔ فون پر ہر وقت رابطہ رہتا ہے۔
س:۔ اسکول کے زمانے میں آپ کا ارادہ کس شعبے میں جانے کا تھا؟
ج:۔ مجھے بالکل نہیں معلوم تھا کہ میں آگے چل کر زندگی میں کیا کرنا چاہتی ہوں، جب کوئی مجھ سے پوچھتا تھا کہ بڑے ہوکر کیا بننا ہے، تو میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کیا جواب دوں۔ ویسے زیادہ رجحان پریکٹیکل چیزوں کی طرف تھا۔ میں تیرہ برس کی تھی تو اسلام آباد کلب میں تھیٹر ’’ممبی ڈریم‘‘ دیکھا تو اداکاری کا شوق ہوا۔ اس وقت میں نے صرف تھیٹر پر کام کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں بھی کام کرسکتی ہوں۔
میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ فلموں اور ڈراموں کی مقبول اداکارہ بن جائوں گی، جب میں انور مقصود کا ڈراما ’’سیاچن‘‘ کرنے کراچی آئی تو دوستوں نے کہا کہ تم ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں کام شروع کردو۔ میں نے ان سے پوچھا، اس طرف کوئی اسکوپ ہے، کیوں کہ میں نے کبھی اس طرف آنے کے لیے ریسرچ نہیں کی تھی۔ کبھی یہ سوچ کر ڈراما یا فلم نہیں دیکھی تھی کہ اس طرف مجھے بھی آنا ہے۔
س:۔ فیملی کی کتنی سپورٹ ہے؟
ج:۔ میری فیملی میں کوئی بھی شوبزنس میں کام نہیں کرتا۔ اس لیے مشکلات تو ہیں۔ گھر والے میرا شوبزنس میں کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ آج کل ان کی ناراضگی تھوڑی کم ہوئی ہے۔ کہتے ہیں ناں!! گھر میں جو سب سے چھوٹا بچہ ہوتا ہے، وہ سب سے الگ ہوتا ہے۔ وہ سب سے ہٹ کر کام کرنا چاہتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ میں بہن بھائیوں میں سب سے مختلف اور کچھ نیا کرنا چاہتی تھی۔
س:۔ اسلام آباد سے ماضی میں کم فن کار سامنے آتے تھے، لیکن پچھلے چند برسوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ج:۔ آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سب کچھ گلوبل ولیج بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے سب کو جوڑ دیا ہے۔ شہروں کا فرق تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے فن کار احمد علی، حریم فاروق، عثمان خالد بٹ، عثمان مختار، یہ سب اچھا کام کررہے ہیں اور اپنے ٹیلنٹ کی وجہ سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
س:۔ کیا آپ اسکول کے زمانے میں تھیٹر وغیرہ میں حصہ لیتی تھیں؟
ج:۔ ایک ضروری بات بتادوں کہ میں اسکول اور کالج کے زمانے میں، پڑھائی میں بالکل اچھی نہیں تھی۔ یونی ورسٹی میں آکر پڑھائی میں دل لگایا۔ وہ بھی اس لیے کہ والدین کی طرف سے شدید دبائو تھا کہ گریجویشن تو لازمی کرنا ہے۔ اچھے نمبروں سے پاس ہوگی تو تھیٹر پر کام کرنے کی اجازت ملے گی۔ اسکول میں اسپورٹس اور تھیٹر میں حصہ لیتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے اسکٹس کرتی تھی۔
س:۔ انور مقصود سے کس طرح ملاقات ہوئی؟
ج:۔ ان کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’سیاچن‘‘ کے لیے میں نے آڈیشن دیا تھا۔ میں نے ان کو اسکرپٹ پڑھ کر سُنایا تھا۔ اسی وجہ سے مجھے ڈرامے میں کام کرنے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ انور مقصود کے ساتھ کام کرکے زبان و بیان میں بہت بہتری آئی۔
میری اردو بہت خراب تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ والدین پنجابی بولتے ہیں اور ہم بہن بھائی گھر میں اردو بولتے ہیں۔ اس لیے میری گفتگو میں دونوں زبانوں کا اثر تھا۔ تھیٹر کے مقبول ہدایت کار داورمحمود اور انور مقصود نے سال بھر میری تربیت کرکے میری اردو ٹھیک کی ہے۔
س:۔ ’’سیاچن‘‘ میں کہاں کہاں پرفارم کیا، وہ تھیٹر تو مختلف شہروں میں ہوا تھا؟
ج:۔ جی ہاں… میں نے کراچی، اسلام آباد، لاہور، ملتان، فیصل آباد اور دبئی میں پرفارم کیا۔ دبئی میں میری پرفارمنس دیکھ کر ہدایت کارہ شازیہ علی خان نے اپنی فلم ’’پنکی میم صاحب‘‘ میں کاسٹ کیا۔
س:۔ کراچی میں کس نے زیادہ سپورٹ کیا؟
ج:۔ اداکارہ ثمینہ احمد کے صاحبزادے زین احمد نے بہت سپورٹ کیا۔ سب سے پہلے کراچی میں ان کا تھیٹر پلے کیا تھا۔ اس کے بعد سلسلہ شروع ہوگیا۔ ٹیلی ویژن پر سینئر اداکار ریحان شیخ، سمیع خان اور اسما نبیل نے میری بہت پذیرائی کی۔ اسما نبیل کی وجہ ہی سے فلم ’’مان جائو ناں‘‘میں کاسٹ کیا گیا تھا۔
س:۔ کیا وجہ ہے کہ اب تک ٹی وی ڈراموں میں آپ مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیوں نہیں کی گئیں؟
ج:۔ یہ بات بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ سپورٹنگ کردارمت کیا کرو۔ تمہیں صرف لیڈ پر آنا چاہیے۔ میں شروع ہی سے یہ سوچتی ہوں کہ کردار کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا، میں جو بھی کردار ادا کرتی ہوں، اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیےجان لڑا دیتی ہوں۔ آہستہ آہستہ میرا کام آگے بڑھ رہا ہے۔ بہت جلد مرکزی کرداروں میں بھی نظر آؤں گی۔
میں نے جن ڈراموں میں کام کیا ہے۔ ان میں میرے سارے کردار بہت مضبوط اور نمایاں تھے۔
ناظرین نے انہیں بے حد سراہا۔ لیڈ کردار فن کاروں کو پروموٹ کرنے کے لحاظ سے اچھے ہوتے ہیں، جب کہ سپورٹنگ کاسٹ بہت جان دار ہوتی ہے۔
میں ایک ایکٹریس ہوں، مجھے پروڈیوسر جس کردار کے لیے منتخب کرتا ہے، میں اسے پوری سچائی اور لگن سے پرفارم کرتی ہوں۔
س:۔ آپ نے فلموں میں بھی کام کیا، اس سلسلے میں رقص وغیرہ کی تربیت لی؟
ج:۔ تھیٹر کے لیے رقص کی تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔ میری دونوں فلمیں بہت پسند کی گئیں۔
س:۔ اداکاری کے علاوہ اور کیا مشاغل ہیں؟
ج:۔ کتابیں شوق سے پڑھتی ہوں۔ مختلف گیت سُنتی ہوں۔ انگلش ادب زیادہ پڑھتی ہوں، ایک کتاب ’’دوزخ نامہ‘‘ بھی پڑھی۔ فہمیدہ ریاض کی شاعری اچھی لگتی ہے۔ ایک تھیٹر میں ان کی شاعری پڑھنے کا موقع بھی ملا۔ مہدی حسن کی غزلیں اور سدا بہار گیت میری سماعتوں کو اچھے لگتے ہیں ’’رنجش ہی سہی‘‘ کو بار بار سُنتی ہوں۔ وحید مراد پر فلمائے گئے گانوں کی کیا بات ہے، وہ فلمون میں بہت کمال کی پرفارمنس دیتے تھے۔
س:۔ شادی کا کب ارادہ ہے؟
ج:۔ یہ سب میں نے اپنے رب پر چھوڑا ہوا ہے، جب اس کو منظور ہوگا، ہوجائے گی شادی۔
س:۔ فن کاروں کو ہمارے معاشرے میں کیا مقام حاصل ہے؟
ج:۔ کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی چیزیں دل کو بُری لگ جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں فن کار کی قدر نہیں کی جاتی، جس طرح دنیا بھر میں فن کاروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ میں اپنی بات نہیں کررہی ہوں۔ آج کل پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز بھی فن کاروں پر توجہ نہیں دیتے، بس ان کو زیادہ سے زیادہ سین فلم بند کرنے ہوتے ہیں۔
س:۔ آپ کی پسندیدہ اداکارہ کون سی ہیں؟
ج:۔ مادھوری ڈکشٹ کی دیوانی ہوں۔ ان کی فلمیں اور رقص دیکھ کر سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ودیا بالن ورسٹائل فن کارہ ہیں۔ دپیکا پڈوکون اچھی آرٹسٹ ہیں۔ انہوں نے اپنی پرفارمنس کا گراف اونچا کیا۔ پاکستان میں ثانیہ سعید اور نادیہ جمیل کی اداکاری اچھی لگتی ہے۔