• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختار احمد

شہزادی نگینہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی، اس لیے بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا تھا- وہ نہایت حسین و جمیل اور عقلمند تھی-جب وہ بڑی ہوئی تو بادشاہ اور ملکہ کو اس کی شادی کی فکرہوئی- اسی دوران اس کے دو شہزادوں کے رشتے بھی آگئے-بادشاہ کو فیصلہ کرنا دشوار ہوگیا کہ اس کی شادی کس سے کرے - اس نے اس بارے میں ملکہ سے بھی مشورہ کیا ،مگر وہ بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ 

اس لیے یہ معاملہ حل نہ ہوسکا-وہ دونوں پڑوسی ملکوں کے شہزادے تھے- ایک شہزادے کا نام شان دار تھا اور وہ نہایت نیک، عقلمند، بہادر اور بہت خوب صورت تھا- دوسرے شہزادے کا نام دلشاد تھا- وہ نہ تو نیک اورعقلمند تھا اور نہ ہی بہادر- اس نے چپکے چپکے دل میں سوچ لیا تھا کہ شہزادی نگینہ سے شادی کرنے کے بعد کوئی سازش کر کے بادشاہ کے تخت پر قبضہ کر لے گا-چونکہ شادی پوری زندگی کا معاملہ ہوتی ہے اس لیے ملکہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں شہزادی نگینہ سے اس کی رائےلے گی ۔

وہ جس شہزادے کو بھی پسند کرلے گی، اس سے اس کی شادی کروادی جائے گی-جب اس نے دونوں شہزادوں کے بارے میں ساری معلومات بتاکر شہزادی نگینہ سے اس کی پسند پوچھی تو وہ بولی، آپ جہاں بھی کہیں گی اور جس سے بھی کہیں گی میں شادی کرلوں گی-"ملکہ نے کہا، ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کسے ہاں کریں اور کسے نہ- تم فیصلہ کر کے ہمیں بتا دو کہ کس شہزادے سے شادی کرنا پسند کرو گی-""- شہزادی نگینہ کچھ سوچ کر بولی- "تو پھر ٹھیک ہے۔ 

میں اس شہزادے سے شادی کروں گی جو میری تین شرطیں پوری کرے گا- ""وہ شرطیں کیا ہیں؟" ملکہ نے حیرانی سے پوچھا-میری پہلی شرط یہ ہے کہ وہ اس تالاب میں تیر کر دکھائے ،جس میں آدم خور مگرمچھ رہتا ہے- میری دوسری شرط یہ ہے کہ وہ چاولوں سے بھری ایک پوری دیگ کھائے- میری تیسری اور آخری شرط یہ ہے کہ وہ سوتا ہوا گھوڑا لائے اور اس پرسواری کر کے دکھائے-" شہزادی نگینہ نے مسکراتے ہوئے کہا-ملکہ اسے حیرت سے گھورنے لگی اور پھر اٹھتے ہوئے بولی-"اس کا مطلب ہے کہ تم شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہو- کوئی بھی تمہاری یہ عجیب و غریب شرطیں پوری نہیں کر سکے گا- شہزادی مسکرانے لگی۔ 

اسے مسکراتا دیکھ کر ملکہ کو غصہ آگیا- اس لیے وہ خفگی سے اٹھ کر بادشاہ کے پاس آئی اور اس سے اس کی لاڈلی بیٹی کی شکایت کی- اس کی بات سن کر بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی- اس نے کہا- "ملکہ- آپ شائد بھول گئی ہیں- آپ نے بھی تواپنی شادی کے لیے تین شرطیں رکھی تھیں- بہت سارے شہزادے ان شرطوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے- مگر انھیں ہم نے پورا کر کے دکھایا تھا کہ نہیں؟"ملکہ کو وہ پرانی باتیں یاد آگئی تھیں- انھیں سوچ کر وہ مسکرانے لگی اور بولی- " " پہلے میری یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شہزادی کی شادی کس سے کریں- اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اسے کیسے سمجھاؤں کہ وہ اپنی بے سروپا شرطوں سے باز آجائے-""اس بارے میں آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں- ہماری شہزادی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقلمند بھی ہو- اگر کوئی ذرا سی بھی عقل لڑائے تو شہزادی کی شرطیں بہ آسانی پوری کرسکتا ہے۔

ہم دونوں شہزادوں کے سامنے شہزادی نگینہ کی شرطیں رکھ دیں گے- جس نے بھی انہیں پورا کردیا، اس کی شادی شہزادی سے کردی جائے گی-" پھر بادشاہ نے ایسا ہی کیا- اس نے ایلچی بھیج کر دونوں شہزادوں کو ان کے ملک سے اپنے محل میں بلوا لیا- دونوں شہزادے اپنے اپنے مصاحبوں اور غلاموں کے ساتھ حاضرہوگئے- بادشاہ نے سب کو شاہی مہمان خانے میں ٹہرایا اور ان کی خاطر مدارات کے لیے خاص انتظامات بھی کر وا دیے-جب شام کو بادشاہ ان شہزادوں سے ملا تو اسے شہزادہ شان داربہت پسند آیا - وہ اس کی شکل و صورت اور وجاہت سے بہت متاثر ہوا تھا- اس کا باپ بہت اچھے طریقے سے اپنے ملک پرحکومت کر رہا تھا جس کی وجہ سے رعایا بہت خوش حال تھی-ملکہ کو بھی وہ شہزادہ بہت پسند آیا- دوسرا شہزادہ جس کا نام دلشاد تھا دونوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا- بادشاہ کو محسوس ہواکہ وہ ایک خوش آمدی اور چاپلوس قسم کا نوجوان ہے- اس بات سے بادشاہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ نہایت چالاک اور عیار آدمی ہوگا۔

ملکہ کو تو شہزادہ شان دار اتنا اچھا لگا کہ وہ شہزادی نگینہ کے پاس گئی اور اس سے بولی- "بیٹی- تم اپنی شرطیں واپس لے لو اور شہزادہ شان دار سے شادی کرلو- ایسا شوہر تو قسمت سے ہی ملتا ہے- اگر پہلی شرط کے دوران ہی مگرمچھ اسے کھاگیا تو بہت برا ہوگا-"شہزادی نگینہ نے اٹل لہجے میں کہا- "اگر میں اپنی شرطیں واپس لیتی ہوں تو اس میں میری بے عزتی ہے- شہزادہ اگر میری شرطیں پوری کرتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اپنے گھر جائے-" ملکہ مایوس ہو کر لوٹ گئی-دونوں شہزادوں کی ملاقات شہزادی نگینہ سے کروائی گئی- وہ انھیں محل سے کچھ دور جنگل کے نزدیک تالاب تک لائی اوران سے کہا- "یہ ہے وہ تالاب جس میں ایک آدم خور خونخوارمگرمچھ رہتا ہے- کیا آپ دونوں اس تالاب میں تیر کر دکھائیں گے؟" اس کا یہ کہنا تھا کہ اسی وقت ایک بہت بڑا مگرمچھ اپنامنہ کھولے تالاب کے کنارے پر آگیا۔

اسے دیکھ کر شہزادہ دلشاد خوفزدہ ہوگیا اور بولا- "جان ہے توجہان ہے- میں تو اس تالاب میں ہرگز نہیں جاؤں گا- شہزادی کی دوسری شرطیں بھی بہت سخت ہیں- دیگ بھر کر چاول تو کوئی دیو ہی کھا سکتا ہے- اس کے علاوہ میں سوتا ہوا گھوڑا کہاں سے لاؤں گا اور اس پر سواری کیسے کروں گا- میں تو چلا- مجھے نہیں کرنی یہ شادی-" یہ کہہ کر وہ چلا گیا-اس کے جانے کے بعد شہزادہ شان دار نے کہا- "شہزادی صاحبہ- کل میں آپ کو اس تالاب میں تیر کر دکھاؤں گا- "رات ہوئی تو اس کے ساتھ آئے ہوئے غلاموں نے تالاب میں ایک بڑا سا جال ڈال کر مگرمچھ کو پکڑ لیا اور دور ایک دریا میں چھوڑ آئے- اگلی صبح ملکہ، بادشاہ اور شہزادی نے دیکھا کہ شہزادہ مزے سے تالاب میں تیرتا پھر رہا ہے- شہزادی نے پوچھا- "اس مگرمچھ کا کیا ہوا- وہ کہاں ہے؟""اسے میں نے پکڑوا کر دریا میں چھڑوا دیا ہے۔ 

آپ کی پہلی شرط میں نے پوری کردی ہے- مجھے امید ہے کہ آپ اس بات پراعتراض نہیں کریں گی کہ میں نے مگرمچھ کو دریا میں کیوں چھڑوایا- آپ کی شرط صرف تالاب میں نہانے کی تھی، مگرمچھ سے لڑنا نہیں-" شہزادے نے تالاب سے باہر آتے ہوئے کہا-ملکہ نے یہ بات حیرانی سے سنی- بادشاہ،مسکرا رہا تھا-شہزادی نے کہا- "بالکل ٹھیک شہزادے- آپ پہلی شرط جیت چکے ہیں-دوپہر ہوئی تو شہزادی نگینہ نے کہا- "شہزادے- آپ مجھے دیگ بھر کر چاول کھا کر کب دکھائیں گے؟"شہزادے نے کہا- "ابھی تھوڑی دیر بعد-" یہ کہہ کر شہزادے شان دار نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا- اس کا ایک مصاحب دو غلاموں کے ساتھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا محل کی جانب آرہاتھا- شہزادہ شان دار بادشاہ سے اجازت لے کر باہر نکلا اوراپنے مصاحب سے کوئی چیز لے کر جیب میں رکھی اور واپس آگیا- اتنی دیر میں ملازموں نے دستر خواں چن دیا- وہ اپنے ساتھ چاولوں کی ایک بڑی سی دیگ بھی لے کر آئے تھے ،جسے انہوں نے دسترخوان کے بیچوں بیچ رکھ دیا - دیگ کو دیکھ کر بادشاہ کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آئے- "کیوں میاں صاحبزادے۔

آپ کھالیں گے دیگ بھر کر چاول؟" "ایک دیگ کیا میں تو دو دیگیں بھی کھاسکتا ہوں"- یہ کہہ کرشہزادہ شان دار نے اپنی جیب سے ایک نہایت چھوٹی سی دھاتی دیگ نکالی جو اس کے ملازم بازار سے خاص طور سے بنواکر لائے تھے، اسنے اسے چاولوں سے بھرا اور شہزادی نگینہ کے سامنے پوری دیگ چٹ کر گیا- "شہزادی صاحبہ- آپ کی دوسری شرط بھی پوری ہوگئی ہے- میں نے دیگ بھر کر چاول کھا لیے ہیں-" اس کی بات سن کر شہزادی نگینہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئی-بادشاہ نے ملکہ سے کہا- "بیگم- اب اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریاں شروع کردو- مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ شہزادے میاں تو سوتے ہوئے گھوڑے پر بھی سواری کر کے دکھا دیں گے-"شام کو بادشاہ، ملکہ اور شہزادی نگینہ اپنے باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے- اچانک انہوں نے شہزادہ شان دار کو ایک گھوڑے کے ساتھ آتے دیکھا- وہ قریب آیا تو بادشاہ حیرت سے بولا-"شان دار بیٹے یہ گھوڑا لیے کہاں پھر رہے ہو؟"شہزادہ شان دار نے بڑے فخر سے بتایا- "یہ گھوڑا نہایت قیمتی ہے۔

میں اسے منڈی سے خرید کر لا رہا ہوں- اس کے مالک نے مجھے بتایا تھا کہ یہ حاتم طائی کے گھوڑوں کی نسل سے ہے-اس کا تو میں نے ایک بڑا اچھا سا نام بھی رکھ لیا ہے-"گھوڑا واقعی بہت خوب صورت تھا- شہزادی نگینہ کو بھی بے حد پسند آیا- اس کا رنگ ہلکا کتھئی تھا اور اس کی گردن پر بڑی بڑی چمکدار ایال تھی - "شہزادے- کیا نام رکھا ہے آپ نے اس کا؟" اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا-"شہزادی صاحبہ- میں نے اس کا نام رکھا ہے "سوتا ہوا گھوڑا"- اب میں آپ کو سوتے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کردکھاؤں گا، تاکہ آپ کی تیسری شرط بھی پوری ہو سکے-" یہ کہہ کر شہزادہ شان دار رکاب میں پاؤں ڈال کر گھوڑے پر سوارہوگیا اور ایڑ مار کر اسے دوڑاتا ہوا باغ کا ایک چکر لگا کردوبارہ ان لوگوں کے پاس آگیا۔

یہ سب دیکھ کر ملکہ اور بادشاہ کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیاتھا- شہزادی نگینہ بھی مسکرانے لگی تھی- کچھ دیر بعد وہ بولی- "ابّا حضور- ہم چاہتے تھے کہ ہماری شادی ایک ایسے شہزادے سے ہو جو بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عقل مند بھی ہو-ہم نے اپنی شرطیں اسی لیے رکھی تھیں کہ انہیں پورا کرنے والے کی ذہانت کا امتحان ہوسکے- خدا کا شکر ہے کہ ہمیں ایساشہزادہ مل گیا ہے-"اس کی بات سن کر بادشاہ اور ملکہ نے سکھ کا سانس لیا-تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی خوب دھوم دھام سے شادی ہوگئی اور وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے- (ختم شد)

تازہ ترین