کانچ کی رنگ برنگی چوڑیاں مشرقی خواتین کے روایتی زیورمیں شمار ہوتی ہیں۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد دنیا میں چوڑی سازی کی صنعت کا دوسرا عظیم مرکز ہے۔سستا زیور ہونے کی وجہ سے ہر عورت کا پسندیدہ زیور کانچ کی باریک اور نازک چوڑیاںہوتی ہیں ۔ رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے بعد چوڑیوں کی مانگ میںخاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھریلو خواتین ہوں یا ملازمت پیشہ اور فیشن ایبل ، کانچ کی چوڑیاں ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ عید، بقرعید، سمیت اقلیتی برادری کے تہواروں کے موقع پر خواتین خصوصی طور پر رنگ برنگی، خوش نما ڈیزائنوں کی چوڑیاں پہننا پسند کرتی ہیں۔
چوڑی کا شمار دنیا کےقدیم ترین زیورات میں ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلی چوڑی موئن جودڑو میں 2600 قبل مسیح میں بنی تھی ۔چوڑی جنوبی ایشیا کی روایتی ثقافت کا ایک اہم ترین جزوبن گئی ہے۔
بھارت کے شہر فیروزآباد کے بعدسندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد،دنیامیں چوڑی سازی کا دوسرا عظیم مرکزہے۔ فیروز آباد، بھارت میں چوڑی سازی کی صنعت سے وابستہ مختلف برادریوںسے تعلق رکھنے والے ہنر مندافراد،ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور حیدرآباد میں آباد ہوگئے۔
کچھ عرصے بعدیہ شہر ملک میں چوڑی سازی کی سب سے بڑی گھریلو صنعت بن گیا۔پاکستان بننے کے بعد حیدرآباد میں چوڑیوں کے تین کارخانے تھے ۔ اِس وقت 42 چھوٹے بڑےکارخانے کام کررہے ہیں۔ اس گھریلو صنعت سے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ مرد، خواتین و بچوں کا روزگار وابستہ ہے۔ حیدرآباد میں لیاقت آباد، گجراتی پاڑہ، حالی روڈ، ملت آباد، اسلام آباد، الیاس آباد، گل شاہ، پیر نورانی بستی، فردوس کالونی اور چوڑی پاڑہ کے علاوہ لطیف آباد میں چوڑی سازی کے مختلف یونٹس شامل ہیں۔
ان کارخانوں میں چوڑیاں پانچ مختلف مراحل سے گزر کر دکانداروں تک پہنچتی ہیں۔ اِن مراحل کو جڑائی، صدائی، چکلائی، چٹک اور گنائی کہتے ہیں۔ اِن سارےمراحل سے گزرتے ہوئے 350 چوڑیوںپر مزدوری سمیت انتہائی کم لاگت آتی ہے۔350 چوڑیوں کےگچھے کو چوڑی سازی کی اصطاح میں ’’ توڑہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی چوڑیاں بازاروں میں فی درجن 50سے 120روپے کی قیمت میں فروخت ہوتی ہیں، یعنی چوڑیوں کے ایک توڑے پر فیکٹری مالکان اور ٹھیکیداروں کو منافع کی صورت میں خطیر رقم حاصل ہوتی ہے۔خواتین کے ہاتھوں میں چوڑی چڑھانے کے عمل کے دوران بے شمار چوڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔
اس وقت کسی کو یہ سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی کہ یہ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں 72 ہاتھوں سے گزر کر ان کی کلائی تک پہنچی ہیں۔ چوڑی سازی میں خام مال کے طور پر شیشہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے، جس میں شیشہ چننے والی خواتین کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ تھر کے علاقے سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین کچرا کنڈیوں اور کوڑے کے ڈھیر سے شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتلیں اور دیگر اشیاء کاندھے پر لادی ہوئی کٹھری میں اکٹھا کرکے ، کارخانے کے مالک، ٹھیکیدار یا ڈیلر کے حوالے کرتی ہیں جو انہیں قلیل رقم ادا کرتا ہے۔ اس مرحلے کے بعد شیشہ کے ٹکڑوں، سوڈا ایش ا و ریتلی مٹی یعنی سلیکا سینڈ (Salica Sand) کو بھٹی پر100 سے 1400 ڈگری فارن ہائٹ کے درجہ حرارت پر پگھلایاکر انتہائی پتلا اورچپچپا محلول تیار کیا جاتا ہے۔
اس مکسچر کو ایک رولر مشین میںڈال کر چوڑیوں کے رول میں بدلا جاتا ہے اور بعد میں الگ کرلیا جاتا ہے۔پھر انہیں انتہائی تیزی کے ساتھ مختلف سانچوں میں ڈالا جاتا ہے تاکہ چوڑیوں کے مختلف سائزکے لچھے تیار کیے جاسکیں۔ یہ عمل بھٹی پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے انتہائی مشقت طلب ہوتا ہےاس کے اثرات سے مزدوروں کے پھپھڑے متاثرہونے لگتے ہیں اور وہ تپ دق جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوکرموت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔
چوڑی سازی کے دوسرے مرحلے میں چوڑیوں کے توڑے تیار کیے جاتے ہیں، یہ توڑے گھر وں میں کام کرنے والی مزدور خواتین کو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ گھرووں میں لگ ہوئی بھٹیوں پر انہیں مختلف عمل سے گزاریں۔ گھروں میں بھٹیاں لگی ہوتی ہیں، جن میں چوڑیاں پکائی جا تی ہیں۔
اِس عمل کو صدائی کہتے ہیں۔ آگ کے چھوٹے چھوٹے شعلوں پر ان چوڑیوں کو جڑائی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں ایک خاص قسم کا کیمیکل استعمال ہوتا ہے جب کہ جو رنگ استعمال ہوتے ہیں وہ سرخ، سبز اور نیلے ہوتے ہیں جب کہ دیگر رنگ ان تینوں رنگوں کو ملا کر تیارکیے جاتے ہیں۔
چوڑیوں پر چڑھے رنگ کومزید پختہ کرنے کے لئے ان پر ایک مخصوص کیمیاوی مادہ لگایا جاتا ہے جسے ہل لگانا کہتے ہیںجس کے بعد چوڑیوں کو آگ پر مزید پکایا جاتا ہے۔چوڑیوں پر پر مینا کاری اور خوبصورت نقش و نگار بنانے کا کام بھی ہوتا ہے۔ پرفنگر پرنٹس بحال ہونے کے لیےتقریباً چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ گھریلوورکرز کو ایک توڑا بنانے کا معاوضہ صرف 10 روپے ملتا ہے اور ایک دن میں یہ سو توڑے تیار کرپاتی ہیں جس کے عوض یہ 100روپے یومیہ کماتی ہیں۔
ہنرمند خواتین چوڑیوں پر پینٹنگ کےعمل سے ان پر نقش نگاری ، ڈیزائننگ اور میناکاری کا کام کرتی ہیں۔ اس کام کے لیے انتہائی مہارت درکار ہوتی ہے۔حیدرآباد میں چوڑیوں پر نام لکھنے والے سینکڑوں کاریگر موجود ہ ہیں جو شیشے کی رنگین تیلیوں اور آگ کی مدد سے انتہائی نفاست سےچوڑیوں پر نام کندہ کرتے ہیں۔ان مراحل کے بعد چوڑیوں کی فنشنگ کے بعد انہیں ڈبوں میں پیک کیا جاتا ہے۔ پیکنگ سے قبل چوڑیوں کو خوبصورت دکھانے کے لئے رنگوں کی مناسبت سے ترتیب دی جاتی ہے۔
سادہ چوڑیوں پر مختلف ڈیزائن بھی کاڑھے جاتے ہیں۔ اس کے لئے حیدرآباد میں الگ سے کارخانے موجود ہیں۔ چوڑیوں پر سو سے زائد دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جاتے ہیں جن کے نام بھی دلچسپ ہیں مثلاً، بندش، موشن بچی، ببل بچی، دلہن، نورجہاں، سادی ثریا اور طوفان۔
مختلف ڈیزائنوں میں ڈھلنے کے بعد یہ چوڑیاں اور بھی زیادہ خوب صورت نظر آتی ہیں۔ڈبوں میں پیک ہونے کے بعد انہیں ہول سیلرز اور ڈیلرز کے حوالے کیا جاتا ہے جو انہیں ملک کے طول و عرض میں فروخت کے لیے بھیجتے ہیں جہاں یہ خواتین کے ہاتھوں کی زینت بنتی ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور سمیت ملک کےمختلف شہروں میں مختلف دھاتوں سے چوڑی سازی کا کام ہوتا ہے۔ لیکن جو مقبولیت حیدر آباد شہر میں خواتین ہنرمندوں کے ہاتھوں سے تیار ہونے والی کانچ چوڑیوں کو حاصل ہے وہ سونے چاندی کی چوڑیوں کو بھی حاصل نہیں۔