اگر تو ملک میں جمہوریت ہے یعنی جمہور یعنی عوام کی حکومت ہے، پھر تو عوام کے سوالوں کے جواب بھی دینے ہونگے، عوام کے مطالبات بھی ماننا ہونگے اور عوام کے سامنے جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔
احتجاج کرنا بنیادی انسانی اور آئینی حق ہے، حکومت، کسی ادارے یا اسکی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کا حق عوام کو حاصل ہے کیونکہ عوام نہ صرف اداروں کے حاکم ہیں بلکہ ادارے عوام کو جوابدہ بھی ہیں۔
اس حق کو استعمال کرنے پر بغاوت اور دہشتگردی جیسی سنگین دفعات کے استعمال کی کوئی قابلِ قبول توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ یہ سلسلہ نہ صرف بند ہونا چاہئے بلکہ اس روش کا احتساب اور گرفت بھی ضروری ہے۔ اسی گرفت کی باز گشت اسلام آباد ہائیکورٹ میں سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔
حالیہ برسوں میں شہری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بڑا مسئلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد اور کراچی سے پُرامن احتجاج کرنے اور ریاستی پالیسیوں پر سوال اُٹھانے اور اُن پر تنقید کرنے پر پاکستانی شہریوں کی گرفتاریاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد سے گرفتار کئے گئے پاکستانی شہریوں پر درج بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمے پر سنجیدہ سوال اُٹھاتے ہوئے، اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس کو خبردار کیا ہے کہ کم از کم اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود کے اندر پاکستانی شہریوں کے آئینی حقوق کی پامالی پر یہ آئینی عدالت چشم پوشی نہیں کرے گی۔
گرفتار پاکستانی شہریوں کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران اُنہوں نے دیگر بہت سے اہم سوال اُٹھائے اور ریاستی عمال کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ ملک کو آمرانہ طریقے سے چلانے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے بار بار اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس سے استفسار کیا کہ انہوں نے کیوں بغاوت اور دہشتگردی کا مقدمہ درج کیا ہے؟
انتظامیہ اور پولیس انجان بنی رہی، ویسے بھی کچھ سوال صرف پوچھنے کیلئے ہوتے ہیں، انکا کوئی جواب نہیں ہوتا، یا یوں کہہ لیں کہ کچھ سوال اپنا جواب خود ہوتے ہیں۔
انہوں نے انتظامیہ اور پولیس سے یہ بھی استفسار کیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے حالیہ فیصلے پڑھے ہیں جن میں بغاوت اور دہشتگردی کے جرائم کے مقدمے قائم کرنے کے بارے میں ہدایات درج ہیں لیکن جواب ندارد۔
انہوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ ملکی اور بین الاقوامی بہترین یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے یہ نوجوان اور طالبعلم کیا ریاست کی جانب سے اس سلوک کے مستحق ہیں؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اور بھی بہت سے متعلقہ سوال پوچھے جن میں حکومت کیلئے بہت سے صائب مشورے چھپے تھے۔
موجودہ حالات کی ستم ظریفی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ سوائے تاریکی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا، ایسے حالات میں اسلام آباد ہائیکورٹ سے کبھی کبھی امید کی چنگاری بھڑکتی ہے لیکن جلد ہی اس پر کوئی نہ کوئی پانی پھینک دیتا ہے۔
آزاد عدلیہ کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک آئینی جمہوری بندوبست میں آزاد عدلیہ کا کام ہی یہ ہے کہ انتظامیہ اور اسکے ماتحت اداروں کے افسران جب آئین اور قانون کی خلاف ورزی کریں تو آزاد عدلیہ ان کے راستے میں بند باندھے۔ آزاد عدلیہ کے ان اقدامات سے چند اہلکار تو ناراض ضرور ہوتے ہیں لیکن ریاستی ادارے اور ریاست مضبوط ہوتے ہیں۔ اسی لئے آزاد عدلیہ بھی نشانے پر رہتی ہے۔
کچھ روز قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت میں رشید اے رضوی کے دلائل میں ایک دلیل یہ بھی تھی کہ آزاد عدلیہ کھٹکتی رہتی ہے۔
پاکستان کی عدلیہ کی کوئی مایہ ناز تاریخ نہیں ہے اور آج بھی بعض ایسے اقدامات اور فیصلے سامنے آ رہے ہیں جنکی وجہ سے مستقبل میں بھی عدلیہ کو سوالوں کا سامنا رہے گا۔ ہر دور میں چند کردار ایسے ضرور رہے ہیں جنہوں نے وقتی مفادات کی خاطر آئین شکنی اور قانون شکنی کا ساتھ دیا ہے لیکن عدلیہ میں کبھی ایسے افراد کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھا گیا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی عدلیہ جو بار اور بنچ پر مشتمل ہے۔
کی اکثریت نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالا دستی کی جنگ لڑی ہے، اداروں کی مضبوطی اور چند افراد کے ہاتھوں موم کی ناک بننے کی مخالفت کی ہے اور ہمیشہ پاکستان کے اصل حاکموں یعنی عوام کے حقِ حکمرانی اور انکے بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا دفاع کیا ہے۔