محکمہ کسٹم سکھر کی جانب سے غیر قانونی طریقے سے اسمگل کی جانے والی اشیاء کے بڑے ذخیرے کو تلف کردیا گیا۔ تلف کی جانے والی اشیاء کی مالیت 20 کروڑ روپےسے زائد بتائی جارہی ہے، جن میں زائد المیعاد ادویات، شراب کی بوتلیں، گٹکا، پان پراگ، فائر کریکر، چاکلیٹ ودیگر سامان شامل ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسٹم کی جانب سے غیر ملکی اعلیٰ کوالٹی شراب کی 90بوتلیں بھی توڑی گئیں۔
قومی خزانے کو خطیر رقم کا نقصان پہنچانے کا سبب بننے والے اسمگلنگ کے کاروبار کو روکنے کے لئے محکمہ کسٹم سکھر کی جانب سے ریکارڈ کارروائیاں کی گئی ہیں۔ مسافر ٹرینوں اور شاہراہوںکے ذریعے مختلف اقسام کا غیر ملکی سامان اسمگل کئے جانے کی کوششیں ناکام بنائی گئی ہیں، جن کی مجموعی مالیت ایک ارب روپے سے زائد بتائی جارہی ہیں۔ ہر ملک و معاشرے میں جرائم مختلف اقسام کی صورت میں موجود ہیںجن میں سے وائٹ کالر کرائم بڑی سنگین نوعیت کا حامل ہے۔ اسمگلنگ کے کاروبار کے ذریعے غیر ملکی سامان کو غیر قانونی طریقے سے ملک کے مختلف شہروں میں پہنچاکر ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو خطیر رقم کا نقصان پہنچایا جارہا تھا تاہم محکمہ کسٹم کی جانب سے اسمگلنگ کے کاروبار کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں جن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
محکمہ کسٹم کی جانب سے غیر قانونی طریقے سے اسمگل ہونے والی ضبط کی گئی اشیاء کے ایک بڑے ذخیرے کوجس میں منشیات سمیت دیگر سامان شامل تھا ، تلف کرنے کے لئے ایک تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب کے دوران محکمہ کسٹم سکھر کی جانب سے ماڈل کسٹم کلکٹریٹ میں ڈپٹی کلکٹر کسٹم ،ڈاکٹر عمران رسول، ڈپٹی ڈائریکٹر انٹیلی جنس کسٹم اینڈ انویسٹی گیشن سید محمد رضا نقوی کی نگرانی میں انسانی صحت کے لئے مضر اور ممنوعہ شیاء کے بڑے ذخیرے کو تلف کیا گیا۔ اس موقع پر چیمبر آف کامرس کے عامر فاروقی، آصف محمود ، سول ڈیفنس، میونسپل کارپوریشن، اینٹی نارکوٹکس فورس، پولیس و دیگر متعلقہ اداروں اور نگراں کمیٹی کےاراکین بھی موجود تھے۔ کسٹم حکام کی جانب سےتلف کئے گئے سامان میں 2037 بیگز چھالیہ، 5027 بیگز انڈین گٹکا، 52 بیگزانڈین نسوار، 59 بیگز اجینو موتو، 382 کارٹن چاکلیٹ، 12کارٹن وائٹننگ کریم، پابندی شدہ ایکسپائر ادویات 17151 اسٹرپس ، 700 کلو گرام فائر کریکر، 90 شراب کی بوتلیں ودیگر اشیاء شامل ہیں۔
اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر ماڈل کسٹم کلکٹریٹ سکھر، ڈاکٹر عمران رسول نے بتایا کہ 26جنوری کو پوری دنیا میں کسٹم کا دن منایا جاتا ہے اور یہ کارروائی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس کا مقصد معاشرے کو مضر صحت اشیاء اور منشیات سے پاک رکھنا ہے۔ حکومتی ادارے غیر قانونی اشیاء کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے کوشاں ہیں۔ ایک سال کے دوران ضبط کی گئی اشیا تلف کی گئی ہیں جن کی مالیت تقریباْ 20 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سامان کو قانونی ضوابط پورے کرنے کے بعد کمیٹی کی نگرانی میں تلف کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے تمام تر صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔
ڈپٹی کلکٹر کسٹم سکھر ڈاکٹر عمران رسول کی فقید المثال کارکردگی اور خدمات کے صلے میں وفاقی حکومت نے ورلڈ کسٹم آرگنائیزیشن اور ایکسی لینس سرٹیفکیٹ بھی دیا ہے۔ ڈپٹی کلکٹر سکھر کسٹم کی بہتر کارکردگی اور منشیات، ایرانی ڈیزل سمیت دیگر اسمگل شدہ سامان کی ترسیل کو روکنے پر چیف کلکٹر کسٹم سندھ کی جانب سےانہیں ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ ڈپٹی کلکٹر کسٹم سکھر کی جانب سے بلوچستان سے سندھ و پنجاب کے مختلف شہروں میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں اور ان کی جانب سے مختصر عرصے کے دوران اسمگلنگ کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔
سکھر کی مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی و تجارتی تنظیموں جمعیت علمائے پاکستان کے مشرف محمود قادری، پاکستان سنی تحریک کے رضوان قادری، گولیمار انڈسٹریل ایریا ایسوسی ایشن کے صدر ملک محمد جاوید، بندھانی برادری کے حافظ شعیب، عبدالجبار راجپوت سمیت شہری و عوامی حلقوں نے بھی کسٹم کی ریکارڈ کارروائیوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ کسٹم کی جانب سے اسمگلنگ کی وارداتوں کو روکنے کے لئے جو کارروائیاں کی جارہی ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ان تمام کارروائیوں کے باوجود ٹرینوں کے ذر یعے اسمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں اورنہ ہی کسی ریلوے افسر کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسٹم حکام نے تو ٹرینوں پر چھاپہ مار کارروائیاں کرکے اپنا فرض پورا کردیا، اب ریلوے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مسافر ٹرینوں کے ذریعے اسمگلنگ میں ملوث ریلوے کے افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائیں۔انہوں نے کہا کہ کسٹم نے متعدد کارروائیوں کے دوران مسافر ٹرینوں پر چھاپے مارکر کروڑوں روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان برآمد کیا ہے مگر اب تک ریلوے کے ملوث افسران و اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی ہے جو کہ ریلوے کے بالا حکام کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔