وادیٔ سندھ کی تہذیب 3300 سے 1700 قبل مسیح کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔انڈس ویلی سویلائزیشن کے باسیوں نے ہزروں سال قبل اپنی رہائش کے لیے پکی اینٹوں سے تعمیر کیےجانے والے مکانات کو روئے زمین پر متعارف کرایا۔سندھ کے قدیم باشندےتعمیراتی فن میں یکتا تھے اور موئن جودڑو سمیت دیگر علاقوںکے کھنڈرات سے قدیم دور کی پرشکوہ عمارتوں کے آثار ملے ہیں۔
دیوار چین کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ یہ دنیا کاساتواں عجوبہ ہے جو چین کے 15صوبوں میں پھیلا ہوا ہے۔8851 کلومیٹر طویل اس دیوار کو تعمیر کرنے میں 17 سو سال کا عرصہ لگا تھا جب کہ تعمیر کے دوران 10 لاکھ مزدور ہلاک ہوئے تھے ۔ اس ثقافتی ورثہ کو محفوظ رکھنے اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ ا کا مرکز بنانے کے لیے ہر سال اس دیوار پر میراتھن ریس منعقد ہوتی ہے جس میں ڈھائی ہزار افراد حصہ لیتے ہیں۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وادی سندھ میں بھی دیوار چین کی طرح ایک عظیم دیوار موجود ہے ، جسے ’’منی دیوار چین‘‘ یا’’دیوار سندھ‘‘ کہا جاتا، یہ رنی کوٹ کے قلعہ میں واقع ہے اور اس کی تاریخ بھی انتہائی قدیم ہے، تاریخی آثار کے ماہرین اس کے معماروں کا کھوج لگانے اور اس کے سن تعمیر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میںاب تک ناکام ثابت ہوئےہیں۔
کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ رنی کوٹ، ساسانیوں کے دور کا قلعہ ہے، چند ماہرین اسے یونانیوں کی طرز تعمیر سے مشابہہ قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رنی کوٹ کاقلعہ 836ہجری میں عرب گورنر، عمران بن موسیٰ نے تعمیر کروایاتھا۔ بعض مؤرخین اسے تالپور حکمرانوں کا تعمیری کارنامہ قرار دیتے ہیں، جنہوں نے اسے 1812میںتعمیرکرایا تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا کہ اس کی تعمیر رومی دور میں ہوئی تھی۔سندھ کے ایک اور محقق ایم ایچ پنہور لکھتے ہیں ”رنی کوٹ ‘‘جن پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے وہ کم از کم آٹھ کروڑ سال پرانی ہیں اور یہ سلسلہ کوہ ، ہندوستان سے پاکستان تک پھیلا ہواہے۔
افسوس ناک امر ہے کہ یونیسکو کی جانب سے اس قلعہ کو عالمی ورثہ قرار دیئے جانے کے باوجود تاحال رنی کوٹ پر کوئی مستند تاریخ سامنے نہیں آئی ہے۔ 1831ء میں برطانیہ کا معروف سیاح الیگزینڈر 1831ء میں جب جامشوروکے مقام سے گزرا تو اس نے رنی کوٹ کے قلعہ کی بھی سیر کی ۔اس قلعہ اوردیوار چین کے بعددوسری عظیم دیوار کاسب سے پہلا تذکرہ دنیا کے سامنے اسی نے پیش کیا تھا۔
قدیم آثار کے بعض ماہرین کا قلعہ رنی کوٹ کے بارے میں کہنا ہے کہ زمانہ قبل از مسیح میں بھی اس قلعہ کا وجود تھا۔ اس وقت سندھ ایران کی حدود میں شامل تھا، لیکن ان کے دعوے کےٹھوس ثبوت نہیں ملے۔ سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ قلعہ میں تحقیقی کام کے دور ان انہیں بعض ایسے شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قلعہ تالپور حکمران کے وزیر نواب محمد خان لغاری نے تعمیرکرایا تھا۔
تاریخی محقق عبدالجبار جونیجو رقم طراز ہیں کہ عالمی انسائیکلو پیڈیا’’ بری ٹینیکا‘‘ کے مطابق دنیا کا قدیم ترین قلعہ جیریکو شہرمیں تھا جو سات ہزار قبل مسیح میں بن کر تیار ہوا ۔اس کی دیواریں21فٹ لمبی اور15 فٹ چوڑی تھیںجب کہ قلعے کی دیواریں نو فٹ تک زیر زمین تعمیر کی گئی تھیں۔اس بارے میں عبدالجبار جونیجوکا مزید کہنا ہے کہ رنی کوٹ اور دیوار چین بھی جیریکو شہر کے قلعے کےمماثل ہیں۔رنی کوٹ کا قلعہ 32 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی دیواریں ساڑھے 7 کلو میٹر طویل ہیں۔اس کا شمار دنیا کے چند بڑے قلعوں میں ہوتا ہے۔
رنی کوٹ پر مستند اور صحیح تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے اس عظیم شاہ کار کو وہ مقام نہیں مل پایا جو دیوار چین سمیت دنیا کے دیگر آثارکے حصے میں آیا ہے۔اس قلعہ پر تحقیق کرنے والےسندھی محقق، بدر ابڑو اپنے مقالےمیں لکھتے ہیں کہ قلعے کی تعمیر ایک سے زائد حکمرانوں کے ادوار میں ہوئی ہے۔بدر ابڑو کے مطابق رنی کوٹ کے قلعہ کی تعمیر و مرمت مختلف ادوار میں کی جاتی رہی ہے ۔ فن تعمیر کے ماہرین کے تجزئیےکے مطابق، رنی کوٹ کی تعمیر میں کم سے کم 3 سے 4 ہزار مزدوروں نے کئی سال تک محنت مشقت کی ہوگی جب کہ اس وقت اس کی تکمیل پر 12لاکھ روپے کی لاگت آئی جو آج کے حساب سے اربوں روپے کے برابر ہے۔
رنی کوٹ کے نام سےمعروف اس عظیم ’’دیوارِ سندھ‘‘ یا ’’دیوار چین ثانی ‘‘ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس عظیم قلعے کے اند’ر ’میری‘‘ اور’’ شیر گڑھ کوٹ‘‘ کے نام سے مزید 2 چھوٹے قلعے بھی تعمیر کیے گئے ہیں جو اسےدنیا کے منفرد اور عظیم قلعے کی شناخت دیتے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ شیر گڑھ قلعہ سطح سمندر سےتقریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑ کی چوٹی پر بنا ہوا ہے، جس کی تعمیر بہ ذات خود ایک عجوبہ ہے۔
جب سیاح اسے دیکھتے ہیں تو وہ ورطہ حیرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس قدر بلند ترین اور خطرناک مقام تک تعمیراتی سامان کس طرح سے پہنچایا گیا ہوگا۔کسی بیرونی حملے کی صورت میں حکمران اپنی رعایا کے ساتھ اسی قلعہ میں پناہ گزین ہوتے تھے۔ ’’میری کوٹ‘‘ کا قلعہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔رنی کوٹ کی دیواریں نہ صرف زمین بلکہ پہاڑوں پر بھی بنی ہوئی ہیں اور مجموعی طور پر ان کی لمبائی 30 کلومیٹر ہے، تاہم گزشتہ چند سال سے قلعے کی دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوچکا ہے۔
اس قلعہ کی سیر بھی سیاحوں کے لیےیادگارتجربہ ہوتی ہے۔ پہاڑی بلندیوں پر عظیم الشان قلعے، دنیا کی دوسری عظیم دیوار، قلعہ کے اندر کھیت، انسانی بستیاں، پانی کے چشمے اور دیگر عجوبے اسے ورطہ حیرت میں ڈالے رہتے ہیں۔ااس دیوار پرتقریباً 18 واچ ٹاورز بھی ہیں، جن کےمتعلق مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ٹاورز کسی زمانے میں بیرونی حملہ آوروں سے خبردار رہنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔،یہاں ایک ندی بھی ہے جو کافی فاصلے تک زیر زمین بہتی ہے۔ قلعے کے اندر آباد گاؤںکے افراد جن کی زندگی کا انحصار زراعت پر ہے، اپنی فصلوں کی آبیاری اسی ندی کے پانی سے کرتے ہیں۔
رنی کوٹ میں داخل ہونے کے لیے ویسے تو 5 دروازے سن گیٹ ، موہن گیٹ، آمری گیٹ، شاہ بر گیٹ اور ٹوری دھوڑو گیٹ‘ ہیں، تاہم کوٹ میں داخل ہونے کے لیے زیادہ تر ‘’سن گیٹ‘ ‘کو استعمال کیا جاتا ہے، جسے قلعے کا مرکزی دروازہ بھی قرار دیا گیا۔قلعے کو دیکھنے کے لیے آنے واالے زیادہ تر افراد اسی دروازےسے قلعے میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ یہی دروازہ مرکزی شاہراہ سے آنے والے راستے پر موجود ہے۔قلعے کے باقی دروازے پہاڑوں سے گھرے ہوئے ہیں جنہیں ماضی میں یہاں کے باسی استعمال کرتے تھے۔
رنی کوٹ کے اندر جہاں اونچے اونچے پہاڑ اور سرسبز کھیت ہیں، وہیں قلعے کے اندر پانی کا چشمہ بھی موجود ہے، جسے سندھی زبان میں ’پرین جو تڑ‘ کہا جاتا ہے۔اس چشمے میں پہاڑوں کی بلندی سے پانی آتا ہے جو سال کے تمام دن کبھی کم تو کبھی زیادہ مقدار میں بہتاہے۔یہ چشمہ قلعے کے ایسےمقام پر موجودہے، جوچاراطراف سے 1500 سے 2000 فٹ بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔اس چشمے کے حوالے سے بھی دل چسپ کہانیاں مشہور ہیں۔قلعہ کے اندر رہنے والے مقامی افراد کے مطابق کسی زمانے میں اس چشمے کے اندر پریاں یا پھر شاہی گھرانوں کی شہزادیاں آکر نہاتی تھیں، جس کی وجہ سے اس کا نام ’’پرین جو تڑ‘‘ پڑگیا۔بعض داستانوں میں بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان ؑ کے دور میں یہ قلعہ جنوں کا مسکن رہا ہے اور اس کی تعمیر بھی انہی کے ہاتھوں سے ہوئی تھی۔
قدیم آثار کے ماہرین کے مطابق رنی کوٹ قلعے کے سامنے دریائے رانی واقع ہے۔ یونان کے معروف مؤرخ، کیورٹس رفس نے اپنی کتاب میں اِس قلعے کا ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ سکندر اعظم نے سندھ سے گزرتے ہوئےتین روز تک اس قلعہ کا محاصرہ کیا تھا۔ سندھ کا حکم راں اپنی رعایاسمیت قلعہ میں محصور ہو گیا تھا ۔ سکندر اعظم قلعہ کا دروازہ تڑوا کر قلعہ میں داخل ہوا لیکن اہل شہر ہزار فٹ کی بلندی پر واقع شیر گڑھ کے قلعہ میں پناہ گزین ہوگئے، جہاں تک رسائی یونانی فوج کے لیے انتہائی دشوار گزارراستوں کی وجہ سے ناممکن تھی۔یہ واقعہ ساڑھے تین سو سال قبل مسیح کا ہے، جورنی کوٹ کے قلعہ اور دیوار سندھ کی قدامت کا بین ثبوت ہے ۔
قلعہ کے اندر داخل ہوتے ہی بالکل سامنے اسٹوپا نما برج ہے جو مقامی طرز تعمیر کا نمونہ اس سے ذرا سا آگے دائیں جانب ایک مسجد کے آثار ہیں، جس سے یہاں مسلمانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے۔اس کے مینار اور گنبد کےکچھ حصے شہید ہوچکے ہیں ۔ 30 فٹ اونچی فصیل کے ساتھ ساتھ پہرہ داروں کے گشت کے لیے 6فٹ چوڑی گزرگاہ ہے۔
پہرہ داروں کے بیضوی شکل کے کمرے ہیں جن کے سامنے سے گزر کر دوسرے دروازے سے کھلا حصہ آتا ہے۔ اس حصے میں ساسانی قوم کے محلات کی طرز پر کمرہ بنا ہوا ہے، جویکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔۔کلہوڑہ، تالپوروں اورانگریزوں نے اپنے اپنے ادوار میں اپنی ترجیحات کے مطابق اس قلعے میں تبدیلیاں کی تھیں۔انگریزوں نے یہاں چٹانوں پر پھولوں کے نمونے تراش کر محرابیں طاق سیڑھیاں اور دروازوں کی چوکھٹیں بنائیں۔ فصیل پر پہنچنے کے لیے دروازے میں داخل ہونے کے بعد دائیں اور بائیں جانب پتھروں کی سیڑھیاں بنائیں۔ اسی جگہ ایک کنواں کھدوایا گیا۔
ماہرین کے مطابق ، اس دور کےلوگوں نے چنے کی دال، چونا، بحری، ٹاٹ، شنگرف اور دیگر اشیاء کے مصالحہ سے پتھروں کو جوڑے کا ہنر سیکھ لیا تھا ۔’’میری قلعہ ‘‘کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے تالپور میروں نے تعمیر کرایا تھا اس لیے ان کے نام کی مناسبت سے یہ ’’میری قلعہ ‘‘ کہلاتا ہے۔ ۔یہ قلعہ زگ زیگ کی شکل میں ہے اور اِس کی تعمیر چونے اور پتھر سے کی گئی تھی۔
یہ بات شبہ سے بالا تر ہے کہ قلعہ رنی کوٹ 1784ء میں حیدر آباد کے تالپور میر خاندان کے زیر نگیں رہا ہے ۔ اس خاندان نے اِس قلعے کی ازسر نو تعمیر کیلئے بڑی کاوشیںکیں ۔لہلہاتے کھیتوں اور سنگلاخ پہاڑوں، بہتے جھرنوں اور فطری حسن سے مالا مال سندھ میں رنی کوٹ انسانی ہاتھوں سے تعمیر کیا ہوا ماضی کا لازوال شاہ کار ہےجو سیاحوں پرسحر طاری کر دیتا ہے۔ تاریخ کے صفحات میں اس قلعے کا رانی کا کوٹ، موہن کوٹ اور رنی کوٹ کے نام سے تذکرہ ملتا ہے ۔ یونیسکو نےاس قلعہ اور دنیا کی دوسری طویل ترین دیو ار کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو عالمی ورثہ قرار دے کراسے قدیم آثار کی فہرست میں شامل کیا ہے۔قلعہ کی فصیل کے اندر ڈائناسورز کے فوسلز بھی ملے ہیں۔
س قلعے کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ اس کی فصیل کے اندر ایک گاؤں آباد ہے جس میں ’’گبول‘‘ خاندان کے 500 افراد رہتے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ پچھلی 7 نسلوں سے یہاں آباد ہیں اوران کے آباء و اجداد کے مطابق رنی کوٹ کا قلعہ 2 ہزار سال قدیم ہے۔یہاں کے باسیوں کے مطابق وہ صرف قلعے کے اندر زرِخیز زمین اور اس جگہ کے مالک ہیں، جہاں ان کے گھر بنے ہوئے ہیں، باقی قلعے کی دیواریں، پہاڑیاں اور قلعے کے اندر موجود مزید 2 قلعے کس کی ملکیت ہے انہیں اس کا علم نہیں۔ ان کے مطابق مجموعی طور پر قلعے میں ان کے 40 گھر آباد ہیں جو 30 کلومیٹر کے رقبے کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔
کچھ عشرے قبل قلعے کی بحالی کا کام شروع ہوا تھا اور یہ کام محکمہ آثارِقدیمہ پاکستان ،سندھ کلچرل ڈیپارٹمنٹ اور دادو ضلع کونسل کی زیرِ نگرانی تھا مگر 2005میں ایک انکوائری کی صورت میں یہ معلوم ہوا کہ اِس کی تعمیرات غیر معیاری کی جا رہی تھیں اور اس قلعہ کی بحالی کے کام میں من پسند لوگوں کو نوازا جا رہا تھاجس کی بنا پر 2006میں اس کا کام روک دیا گیا۔محکمہ سیاحت و ثقافت نے قلعے میں گیسٹ ہاؤسز بنوائے ہیں جب کہ اس کی خستہ حال دیواروں کی مرمت کا کام کروایاگیا ہے رنی کوٹ قلعہ کے انچارج غیور عباس کا کہنا ہے کہ اس تاریخی قلعے پر پاکستان بننے کے بعد صرف 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں وفاقی حکومت نے 2 بار سیمینارز کا انعقاد کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد تاریخی مقامات کی صوبوں کو منتقلی ہونے کی وجہ سے سندھ حکومت نے 2014ء میں پہلی بار رنی کوٹ پر توجہ دی اور یہاں مرمت اور تزئین و آرائش کا کام کرایا گیا اور سیاحوں کے لیے سہولتوں کی فراہمی کے بعد اس قلعہ کو دیکھنے کیلئے آنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔غیور عباس کے مطابق سندھ حکومت نے رنی کوٹ میں پینے کے صاف پانی کے لیے ایک کنواں کھدوایا ہے،جب کہ ویران علاقے اور شہر سے دُور ہونے کی وجہ سے رنی کوٹ کے گیسٹ ہاؤسز میں فوری طبی امداد کے لیے بھی سہولتوں کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔اس قلعہ کو قومی ورثہ قرار دے کراس کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جب کہ دیوار سندھ کو دنیا کی دوسری عظیم دیوار کا رتبہ دلانے کے لیے بھی عالمی سطح پر کاوشیں کی جانی چاہئیں۔