• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


کیماڑی واقعہ میں جاں بحق افراد کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا، ایک میت آبائی گاؤں روانہ کردی گئی جبکہ دوسروں کی تدفین کردی گئی۔

کراچی بندرگاہ سے جڑے رہائشی علاقے کیماڑی میں پراسرار گیس یا کیمیکل کی بُو سے متاثر ہوکر جاں بحق ہونے والے پانچ افراد کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا جن میں سے ایک میت آبائی گاؤں روانہ کردی گئی ہے جبکہ دیگر میتوں کو کراچی میں سپردخاک کیا گیا ہے۔

پولیس سرجن کراچی ڈاکٹر قرار عباسی کے مطابق لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح یا سول اسپتال لایا جانا تھا مگر آج دوپہرتک کوئی ایک لاش بھی سرکاری اسپتال نہیں لائی گئی، پانچوں لاشیں لواحقین نجی اسپتالوں سے گھر لے گئے۔

ڈاکٹر قرار عباسی کے مطابق طویل علالت کے بعد اسپتال میں انتقال کرجانے والے افراد کا پوسٹمارٹم ضروری نہیں ہوتا لیکن کسی بھی اچانک واقعہ میں ابتدائی طبی امداد کے دوران مرجانے والوں کا پوسٹمارٹم ضروری ہوتا ہے۔

کیماڑی جیسے پراسرار واقعہ جس کے کوئی ظاہری شواہد سامنے نہ آسکیں تو ایسے افراد کے مرنے کی وجہ پوسمارٹم یا کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ سے پتہ چل سکتی ہے، مگر ایسا نہیں کیا گیا، اس واقعہ میں ابتدائی ایک گھنٹے کے دوران جاں بحق ہونے والی نماز بیگم کو کراچی میں ہی سپراد خاک کردیا گیا ہے۔

جاں بحق ہونے والی خاتون مسرت یاسمین کی لاش لواحقین نجی اسپتال سے جاری ڈیتھ سرٹیفکٹ حاصل کرکے راولپنڈی لے گئے ہیں، جاں بحق نوجوان محمد احسن کاونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے پولیس افسر عمر فاروق کا صاحبزادہ ہے جو کیماڑی کی ڈاکس کالونی کا رہائشی اور اقراء یونیورسٹی میں بی سی ایس کا اسٹوڈنٹ تھا۔

پولیس کے مطابق متوفیہ عظیم بیگم زوجہ منشی خان کے لواحقین نے مسان روڈ کا رہائشی پتہ درج کرایا تھا، عظیم بیگم کی لاش کتیانہ میمن اسپتال سے گھر لے جائی گئی تھی۔

جیکسن پولیس کے مطابق تمام افراد کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرانے کے لیے بھر پور کوشش کی گئی مگر لواحقین مشتعل تھے اور پوسٹمارٹم کرانے سے منع کردیا۔

پولیس کے مطابق نجی اسپتالوں کی انتظامیہ نے تمام افراد کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ جاری کئے ہیں، جن میں وجہ موت درج کی گئی ہے۔

تازہ ترین