• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا بھر میں بہت سے افراد ہر وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ان میں سے بعض کے حصّے میں شہرت آتی ہے اور بعض خاموشی سے اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ایسے ہی خاموش لوگوں میںڈاکٹر منصور احمد بھی شامل ہیںجو 35 سال سے امریکا کے خلائی تحقیق کے ادارے’’ ناسا‘‘ سے وابستہ ہیں اور ایسٹرو فزکس کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کررہے ہیں ۔انہوں نے ناسا کی جانب سے خلامیں بھیجی گئی ہبل ٹیلی اسکوپ تیار کرنے میں اہم کردا ر ادا کیا تھا۔

اب وہ ڈپٹی پروجیکٹ مینیجر کی حیثیت سے جیمز ویب ٹیلی اسکوپ پر کام کررہے ہیں اور یورپین اسپیس ایجنسی اور ناسا کے اشتراک سے شروع ہونے والے پر وجیکٹ lisaکے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ناسا کے متعدد منصوبوں پربھی کام کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں نمائندہ ’’جنگ‘‘ نے ان سے فون پرامریکا میں رابطہ کیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

س:ابتدائی تعلیم اور خاندانی پس منظر کے بارے میں قارئین کی معلومات کے لیےکچھ بتا ئیں ؟

ج:میری جائے پیدائش ایبٹ آباد ہے ،لیکن ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی، کیوں کہ میرے والد فوجی افسر تھے۔ ان کا ہر چند سال بعد دوسرے شہر میں تبادلہ ہو جاتا تھا۔آخر میں ہم لوگ پشاور شفٹ ہوئے تو تعلیم کا آغاز وہیں سے کیا ۔ بچپن سےائیر فورس کاپائلٹ بننے کا شوق تھا، مری کے پی اے ایف کالج، لوئر ٹوپا میں میرا انتخاب بھی ہو گیا تھا ۔یہ کالج ہر سال ایئر فورس پائلٹ کے لیے 60 طلبا کا انتخاب کرتا ہے ۔جب میں میٹرک میں تھا تو بد قسمتی سے میری آنکھیں کم زور ہوگئیں، جس کے سبب میں اس میں مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکا ۔اس دوران میرے والدین امریکا شفٹ ہوگئے۔

بعد ازاں میں نے امریکا میں ایک سال ہائی اسکول میں پڑھا ،پھر مکینیکل انجینئرنگ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ سے بیچلرزکیا اورجارج واشنگٹن یونیورسٹی سےمکینیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا ۔کیر ئیر کا آغاز ایک ائیر کنڈیشننگ انڈسٹری سے کیا ۔وہاں تقریباً ایک سال کام کیا ۔اسی دوران امریکامیں توانائی کا بحران آگیا ،کیوں کہ عر ب ممالک نے امریکا کوتیل کی فراہمی بند کردی تھی اور ملک میں توانائی کی بہت زیادہ کمی ہوگئی تھی۔لہٰذا حکومت نے ارادہ کیا کہ کیوں نہ قابل تجدید توانائی پر تحقیق کی جائے تحقیق سے معلوم ہوا کہ شمسی توانائی کو قابل استعمال بنا یا جاسکتا ہے ۔کچھ عرصہ میں نے اس پروجیکٹ پر کام کیا ۔بعدازاںمیں نےناسا جوائن کرلیا اور تاحال ناساہی میں کام کررہا ہوں۔

س: سائنس کے شعبے کاانتخاب کرنے کی کوئی خاص وجہ تھی ؟ اگر اس شعبے سےو ابستہ نہ ہوتے تو کس شعبے میں اپنا کیر ئیر بناتے ؟

ج: اس شعبےکے انتخاب کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی ۔ائیر فورس کے بعد اگر مجھے کسی شعبے میں کام کرنے کا شوق تھا تو وہ سائنس ہی تھا ۔اسی لیے میری زیادہ تر دل چسپی تحقیق اور ایجادات کی طرف ہی رہی ۔

س: آپ نے اپنے کیر ئیر کا ایک بڑا حصہ ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کے مختلف پروگرامز میں گزرا ۔اس بارے میں کچھ تفصیلات بتا ئیں ؟

ج: ناسا نے جب ہبل ٹیلی اسکوپ پر کام کرنا شروع کیا تھا ،اُس سے کچھ عرصہ قبل ہی میں نے ناسا جوائن کیا تھا ۔اس ٹیلی اسکوپ کے 5 آلات ہیں جو سائنٹیفک کام کرتے ہیں ،ان میں سے ایک تھرمل انجینئرنگ کا کام کرتاہے۔اس کی سر براہی میں کرتا تھا ،اس میں یہ چیک کرنا ہوتاتھا کہ جب یہ ٹیلی اسکوپ استعمال ہوگی تو اس کادرجۂ حرارت کس حد تک کنٹرول کرنا ہوگا ،کیوں کہ ہبل ٹیلی اسکوپ بہت ہی نازک ہے۔

اگر اس کادرجۂ حرارت نصف ڈگری سے زیادہ یا کم ہو جائے تو اس کے خراب ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں ۔کچھ عر صہ میں نے تھرمل انجینئرنگ پرکا م کیا،پھر میں پوری ہبل ٹیلی اسکوپ کی ٹیم کا انچارج بن گیا اور اس کے تمام کام میری سر براہی میں ہونے لگے ۔جب ہبل ٹیلی اسکوپ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو مجھے اس کا آپریشن مینیجر بنا دیا گیا۔ اب تک ہبل کے 5 سروسز مشن ہوچکے ہیں اور ان سب کی سر براہی میں نے ہی کی ہے ۔اسے خلا میں بھیجے ہوئے تقریباً28 سال ہوچکے ہیں اور ہر 3 سال بعد اس میں تھوڑی بہت تبدیلی کی جاتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ اب تک اپنا کام بہ خوبی کررہی ہے ۔

س:آپ کے خیال میں جدید دور میں کوئی قوم کس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھ سکتی ہے ؟

ج:کسی ملک کو اگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کرنی ہے تو اس ملک کی حکومت کو چاہیے کہ اس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے اور اس کے لیے کچھ بجٹ مختص کرے۔کیوں کہ نجی شعبے کا کام سائنس داں اور انجینئرز تیار کرنا نہیں ہوتا۔یہ کام حکومت کا ہے ،یہ بات سوچنی چاہیے کہ کس طر ح پوری دنیا اس شعبے میں ترقی کرکے آگے بڑھ رہی ہے ہم بھی اس میں پیسہ لگاکر اپنی قوم کو جدید ایجادات فراہم کریں ۔اب تو دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔روزانہ ایک سے بڑھ کر دوسری ایجاد ہورہی ہے۔

س:دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی کےشعبوں سے زیادہ واقف نہیں ہیں ؟آپ کے خیال میں ہم اپنےلوگوں کو کس طرح ان شعبوں کی طرف راغب کر سکتے ہیں ؟

ج:جدید دور میں لوگ ہر چیز کے بارے میں بہت آسانی سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔پاکستان میں بھی بہت ذہین لوگ موجود ہیں جو ان شعبوں میں بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ان کے کام منظر عام پر لاکر لوگوں کو اس جانب راغب کیا جاسکتا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم سائنس اورٹیکنالوجی کی ایجادات کو دل چسپ بنا کر بھی پیش کرسکتے ہیں ،تا کہ انہیں سمجھ کر اور ان کے بارے میں پڑھ کر لوگوں میں مزید کام کرنےکا جذبہ پیدا ہو ۔اسکولز میں بھی اس مضمون کو بہت دل چسپ طریقے سے پڑھا نے کی ضرورت ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، اسلام آباد میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فزکس میں میرا جانے کا اتفاق ہوا۔میں وہاں کے طلبا کو دیکھ کر بہت زیادہ متاثر ہوا کہ وہ کتنے ذہین ہیںاورانہیںسائنس کے مضامین میں کتنی دل چسپی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر فزکس میں پی ایچ ڈی کررہے تھے ۔اس عزم کو دیکھتے ہوئے میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں ان کا ناسا کے انجینئرز اور سائنس دانوں سے رابطہ کراوں گا ،تا کہ وہ ایسٹروفزکس کے حوالےسے مزید معلومات اور رہنمائی حاصل کرسکیں اور اس شعبے میں اپنا کیر ئیر شروع کرسکیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کو ترقی یافتہ بنانےکے لیے سا ئنس اورٹیکنالوجی کو فر وغ دینا ضروری ہے ۔

س: آپ نے ہبل اور جیمز ویب ٹیلی اسکوپ، دونوں پر کام کیا ہے ؟ ان میں واضح فرق کیا ہے ؟اور مستقبل میں کس سے زیاد ہ استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟

ج: ہبل اور جیمز دونوں اپنی جگہ بہتر ین ہیں۔ایک بات میں آپ کو ضرور بتا ئوںگا۔ جب ہبل لانچ ہوئی تو ہمارےپاس چند سوالات تھے جن کے جواب ہبل کے ذریعے حاصل ہونے کی اُمید تھی۔ لیکن ہبل نے نہ صرف ان کے جواب دیے بلکہ 10 اور سوالات ہمارے سامنے پیش کر دیے ۔جیمز ویب جب لانچ ہوجائے گی تب ہی اس کی خصوصیات کے بارے میں زیادہ صحیح طر ح سے بتا یا جاسکے گا ۔دونوں میں واضح فرق یہ ہے کہ ہبل انفراریڈ روشنی کو اور جیمز آپٹیکل اور الڑاوائلٹ روشنی کو نہیں دیکھ سکتی ۔ عام طور پر جتنے بھی سیٹلائٹ اور ٹیلی اسکوپ خلا میں بھیجی جاتی ہیں وہ الیکٹرو میگنیٹک اسپیکٹرم کو فوکس کرتے ہیں ۔

ہبل کی جوقابلیت ہے وہ واضح روشنی پر ہے جو عام انسان واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں اور وہ بہت محدود ہے۔جو دیگر اقسام کی روشنیاں ہوتی ہیں، مثلا، الٹراوائلٹ ،انفراریڈ اور گاما ریز پر ہبل کا فوکس نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی یہ ان روشنیوں کو نظر بند کرسکتی ہے ۔یوں سمجھ لیں کہ تھوڑے سے فاصلے کے بعد ہبل اندھی ہوجاتی ہے اور جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کا فوکس انفرا ریڈ شعائوں پر ہے۔اسی لیے یہ دوردراز میںموجودکہکشائوں کی روشنی کو واضح طور پر دیکھ سکے گی ۔ایک فرق یہ بھی ہے کہ جیمزٹیلی اسکوپ کا عدسہ یا مِرر چھ میٹرقطرکااورہبل ٹیلی اسکوپ کا مررتقریباً ڈھائی میٹر قطرکاہے ۔ جیمز ٹیلی اسکوپ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ہمیں ماضی کی تصویر بھی دکھا سکتی ہے ۔

س:ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے اشتراک سے شروع ہونے والے پر وجیکٹ  lisa کے بارے میں کچھ بتا ئیں ؟

ج: lisaایک ایسامشن ہے جو گریوی ٹیشنل ویوز کو استعمال کرے گا۔ ناسا کے ماہرین کا کائنات کا مطالعہ کرنے کا یہ بالکل نیا انداز ہے۔ اب تک اس طر ح سے کائنات سےکسی قسم کی معلومات حاصل نہیں کی گئ ہیں۔lisa کے ذریعے بگ بینگ تھیوری کی شروعات کے بارے میں بھی ہم جان سکیں گے۔اس کے علاوہ جہاں سے الیکٹرومیگنیٹک روشنی خارج نہیں ہو پاتی وہاں اندر گہرائی میں موجود بلیک ہولز بھی دیکھے جاسکیں گے ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ کائنات میں پو شیدہ رازوں کواس کی مدد سے آسانی سے جانا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ مشن لانچ کرنے میں 6 سے 7 سال لگیں گے۔

س:آپ کو پاکستان میںاوردیگر ممالک میں سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبے میں کیا واضح فرق نظر آتاہے جس کی وجہ سے پاکستان اس میدان میں زیادہ ترقی نہیں کر سکا ہے ؟

ج:میرے خیال میںجو فرق ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس شعبے کو اس طر ح اہمیت نہیں دی جاتی ،جس طر ح دیگر ممالک میں دی جاتی ہے ۔پاکستان کے پاس جدید چیزیں نہیں ہیںاورنہ سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبے میں اتنی زیادہ سر مایہ کاری کی گئی ہے ۔حالاں کہ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں ذہین لوگوں کی کمی ہے۔ اگر پاکستان کے طلباکو صحیح پلیٹ فارم فراہم کیا جائے تو وہ بھی اس شعبے میں ترقی کرسکتے ہیں ۔

اس کے لیے پاکستان میں موجود ٹیکنا لو جی کے انسٹی ٹیوٹس کو اپنا مرکزی کردار ادا کرنا ہوگا ۔ان دنوںمیں ناسا کے ساتھ ایک پروگرام پر کام کررہا ہوں، جس کے تحت ہم پاکستان کی یونیورسٹیز کا ناسا کے سائنس دانوں کے ساتھ رابطہ کر وا رہے ہیں ،تاکہ طلباکو سائنس اورٹیکنالوجی کےحوالے سے آئن لائن لیکچرز دیے جا سکیں ۔پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ نا سا اور دیگر ممالک کے ساتھ کوئی مشتر کہ منصوبہ بنائے ،تاکہ طلباکو بیرونی ممالک پڑھنے کے لیے بھیجا جاسکے۔اگر پاکستان کو اس شعبے میں ترقی کرنی ہے تو ایسا کرنا لازمی ہے ۔

س:آپ کو فلم بنانے کا بھی شوق ہے۔دوسری طرف ناسا سے وابستگی ہے۔یہ کیا ہے؟آپ کے خیال میں آنے والے وقتوں میں ان دونوں شعبوں کا آپس میں کتنا تعلق ہوگا؟

ج: فلم بنانے کا شوق بس ایسے ہو گیا تھا ۔پشاور میں میرے گھر کے قر یب ایک سنیما تھا۔ والد کے ساتھ ایک دفعہ وہاں ایک انگلش فلم دیکھنے گیا تھا ۔فلم دیکھنے کے بعد اچانک مجھے فلم بنانے کا شوق ہوگیا۔ لیکن اس پر میںنے اتنا زیادہ کام نہیں کیا ۔میرے خیال میںمستقبل میں دونوں شعبے ساتھ ہی ترقی کریں گے ،کیوں کہ سائنس آرٹ کے بغیر ادھوری ہے اور آرٹ ،سائنس کے بغیر ۔اسی لیے دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ہم سائنس کے نظریات آرٹ کے ذریعے لوگوں کو آسانی سےسمجھا سکتے ہیں اوران کے دماغ میں پیدا ہونے والے سوالات کے جواب دے سکتے ہیں ۔سائنس فکشن فلموں کے ذریعے مستقبل میں متعارف ہونے والی ٹیکنالوجیز کے بارے میں بتا سکتے ہیں ۔

س:آپ کی نظر میں آج انسانی زندگی میں سائنس اورٹیکنالوجی کا کردار کتنی اہمیت کا حامل ہے ؟

ج: اس دور میں سائنس اورٹیکنا لوجی کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔اس کی مدد سےہم اپنے ملک کو بہت آگے لے کرجاسکتے ہیں۔جو ممالک اس پر توجہ نہیں دیتےآپ دیکھیں وہ خاطر خواہ ترقی نہیں کر پاتے ۔ سائنس اوروٹیکنالوجی کے شعبے کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی طر ح ہوتے ہیں۔

س: کسی بھی ملک کےاقتصادی حالات بہتر بنانے اوراسے ترقی دینے میں سائنس اورٹیکنالوجی نے کس حد تک کام کیا ہے ؟

ج:اقتصادی حالات بہتر بنانے میں ٹیکنالوجی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔مثال کے طورپر کوئی بھی ملک اگر نئی ٹیکنالوجی تیارکرتا ہےتو اس کی وجہ سے تھوڑی بہت معیشت تو بڑھتی ہی ہے ۔

س:مستقبل میں سائنس کے حوالے سے آپ کے کیا منصبوے ہیں ؟

ج:فی الحا ل تو lisa پر ہی کا م ہو رہا ہے ۔علاوہ ازیں مستقبل میں ارادہ ہے کہ مزید جدیدٹیلی اسکوپز کو خلا میں بھیجا جائے ،تا کہ کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہو سکیں ۔

س: اس شعبے میں پڑھنے والے طلبا کے لیے کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟

ج: سائنس اورٹیکنالوجی کے شعبوں سے وابستہ طلبا سے یہ کہنا چاہو ں گا کہ یہ بہت دل چسپ شعبہ ہے۔اس میں پوری محنت اور لگن کے ساتھ کام کریں۔ یہ آپ کا اور آپ کے ملک دونوں کا نام روشن کرے گا۔ اس کے علاوہ اس کے ذریعے آپ اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بھی شامل کرسکتے ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین