• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”وہ شخص دین کی کڑیاں بکھیر دے گا جو اپنے زمانے سے واقف نہ ہو“۔ یہ قول حضرت عمر فاروق  کا ہے۔ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں یہ عہد 1924ء میں خلافت اسلامیہ کے ملبے پر تعمیر ہوا ہے۔ مغرب کے عسکری استعماری غلبے کے ساتھ ساتھ دنیا پر مغرب کا فکری غلبہ بھی ہوتا گیا۔ اس غلبے کا تعلق مغرب کے جدید فلسفے سے ہے جس نے دنیا کی تیس تہذیبوں کی مابعد الطبعیات، ایمانیات، اعتقادات اور دیگر مسلّمات کو قبول کرنے سے یکسر انکار کیا۔ یہ بھی کہا کہ مابعد الطبعیاتی سوالات احمقانہ سوالات ہیں، ان کا جواب معلوم نہیں کیا جاسکتا لہٰذا انسان نے خالق سے اپنا رشتہ توڑ کر ماضی کو تاریک زمانہ قرار دیا۔ انسان کو خالق مانا۔ اس دورکو جدید فلسفے کی زبان میں روشن خیالی ، آزاد خیالی ، انسان پرستی کازمانہ کہا جاتا ہے۔ جب انسان نے علم ہدایت کی روشنی کے لئے باہر، خارج، آسمان، وحی، پیغمبر اور بیرون کی طرف دیکھنے کے بجائے تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے اندرون کی طرف توجہ کی، اپنی عقلیت پر اعتماد کیا اور عقلیت کے ذریعے روشنی حاصل کی۔ ”کانٹ“ کا مضمون ” What is Enlightment“ انسان کے اس ذہنی سفر بلکہ ذہنی ارتداد کی خوفناک کہانی ہے۔ انسان جب علم میں خود کفیل ہو گیا تو اس نے ایک نیا مذہب تخلیق کیا جو جدید فلسفے سے نکلا، جسے ہم انسان پرستی اور آزادی کا فلسفہ کہتے ہیں لہٰذا عہد جدید کا انسان اس کے ارادے، اس کے ادارے، اس کا علم، اس کی سائنس اور اس کی ٹیکنالوجی انسان کی آزادی میں مسلسل اور مستقل اضافے میں مصروف ہے۔ اس آزادی کا ایک ہی مقصد ہے، وہ ہے زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرنا لہٰذا عہد حاضر میں علم کی تعریف بھی بدل گئی ہے، جو جدید فلسفے کا اثر ہے۔ ادراک ِعہد حاضر کے لئے اور عہد حاضر کے تمام مقاصد کو جاننے کے لئے ہمیں جدید مغربی فلسفے سے کچھ نہ کچھ آگہی ضروری ہے۔ مسلمانوں نے ماضی میں یونانی فلسفے کا ناقدانہ جائزہ لیا تھا بالکل اسی طرح ہمیں جدید فلسفے کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جدید فلسفے نے ہمیں برے طریقے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کیا کریں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا؟ جدید فلسفہ پڑھنے اور سمجھنے سے یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ ہمیں جدید فلسفے کا کماحقہ ادراک ہی نہیں ہے، ان کے بھیانک مقاصد سے آگاہی نہیں ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ اقبال اور مولانا یوسف بنوری جدید فلسفے کی تباہ کاریوں سے بخوبی واقف تھے۔1857ء کی جنگ آزادی اور اس میں مسلمانوں کی عارضی شکست ان کے سامنے تھی۔ فرنگی استعمار اور ہندو ثقافت کے یکے بعد دیگرے ہندوستان پر پنجے گاڑنے کی کوششوں سے وہ باخبر تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کی سرزمین ہند سے بے دخلی کا جو خواب دشمن دیکھ رہا تھا، وہ ان کے علم میں تھا۔ یہی حال اقبال کی شاعری کا ہے۔ قاسم نانوتوی کی کتابوں اور تحریروں میں جدید فلسفہ کے پیدا کردہ سوالات، شبہات اور اشکالات کا زبردست ردّ موجود ہے۔ اس میں علم کلام کے تمام خدوخال موجود ہیں۔ مولانا تھانوی کی کتاب ”الانتباہات المفیدہ“ جدیدیت، جدید فلسفے کا نہایت عالمانہ وفاضلانہ ردّ ہے۔ محمد حسن عسکری اور پروفیسر کرار حسن نے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ”An answer to modrenism “ کے نام سے کیاہے۔ جدید ذہن میں پیدا ہونے والے تمام شبہات کا ازالہ یہ مختصر کتاب کر دیتی ہے۔ جدید انسان اسی جدید فلسفہ مغرب کی تخلیق ہے جو مابعد الطبعیاتی سوالات پر یقین نہیں رکھتا۔ ارسطو کی اتباع میں اس دنیا کو ابدی سمجھتا ہے لہٰذا اس ابدی دنیا کو جنت بتانے میں مصروف عمل ہے۔ جدید ترقی اس جنت کے حصول کے وسائل مہیا کر رہی ہے۔ مذکوہ بالا حضرات اس بات کے قائل تھے کہ مسلمان خصوصاً دین دار طبقہ اور علماء جدید فلسفے سے واقف ہوں۔ پہلے جدید فلسفے کو خود سمجھیں پھر عوام کو سمجھائیں اور پھر اس کے سامنے سد اسکندری بن جائیں۔ یہ کام ہماری تاریخ کے آغاز میں امام غزالی اور امام ابن تیمیہ  کے ہاتھوں نہایت احسن طریقے سے مکمل ہو چکا ہے۔ امام غزالی یونانی زبان نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے اس زبان کے بغیر ہی یونان کے فلسفے کو علمی شکست دی۔ ابن تیمیہ یونانی زبان جانتے تھے انہوں نے یونانی منطق و فلسفے کو دوسرے طریقے سے شکست دی۔ وہ علماء جو انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبان نہیں جانتے وہ امام غزالی کے طریقے کی پیروی کریں۔ جو علماء ان زبانوں سے واقف ہیں وہ ابن تیمیہ کے طریقے کی پیروی کریں۔ زبان سے عدم واقفیت جدید مغربی فلسفے کے فہم میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ جدید فلسفے کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے، اس کے مطابق ہر انسان کو مذہب سے مکمل آزادی ہے۔ اعلیٰ اخلاقی اور معاشرتی اقتدار سے بالکل آزادی، ہر انسان آزاد ہے کہ وہ جو چاہے بکتا پھرے۔ گویا جدید فلسفے میں مادیت ہی مادیت اور مادر پدر آزادیاں ہی آزادیاں ہیں۔ اس میں وحی الٰہی، تعلیمات نبوی اور اعلیٰ اخلاقی اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ لبرل ازم، سیکولر ازم، سوشلزم اور دیگر بیسیوں قسم کے ازم مادہ پرستی، خواہش پرستی، ہم جنس پرستی، نفس پرستی اور انسان پرستی کی پیداوار ہیں۔ اس میں انسان کو اللہ کے بندہ کے بجائے مطلق العنان قسم کا فرد تسلیم کیا گیا ہے۔ دنیا میں شیر کو شیر نہیں کھاتا، کتے پر کتے کا گوشت حرام ہوتاہے، چیلیں چیلوں پر حملہ نہیں کرتیں ،سور بھی سور کونقصان نہیں پہنچاتا مگر جدید دور کا ایک انسان اور ایک ملک دوسرے انسان اور دوسرے ملک کو کھا جاتاہے۔ یہ دوسرے انسان اور ملک کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اس کے بعد گلے میں جنونیت کا ڈھول لٹکا کر برہنہ رقص کرتاہے۔ پوری دنیا اور انسانیت کی نجات اسی میں ہے کہ اس فلسفے کو مکمل سمجھا جائے۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور دھیرے دھیرے اس سے جان چھڑائی جائے، ورنہ ہر طاقتور ملک کمزور ملک کو دبوچتا رہے گا۔ ہر طاقتور انسان کمزور انسان کو کھاتا رہے گا۔ انسان انسانیت سے شرماتا رہے گا۔ ناواقفیت کی بنا پر اہلِ علم بھی اسی سیلاب میں بہہ جائیں گے۔
تازہ ترین