پاک-بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن (ڈی سی ایف اے)پاکستان ڈیری انڈسٹری کی بہتری کیلئے ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں گے۔
اس حوالے سے ڈی سی ایف اے کے صدر شاکر عمر گجر اور پاک-بینیلکس اوورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حافظ اُنیب راشد کے درمیان ٹیلیفون پر تبادلہ خیال ہوا۔ جس میں ڈیری فارمرز کو درپیش حالیہ مسائل پر گفتگو ہوئی۔ جس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر پاکستان میں ڈیری کی صنعت خصوصی طور پر کھلا دودھ فروخت کرنے والے افراد جو کہ اس صنعت کا 70 فیصد سے زائد ہیں، کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔
شاکر عمر گجر نے بتایا کہ کھلے دودھ کا تاجر اپنی صنعت کے تحفظ کیلئے اس بات کی شدید خواہش رکھتا ہے کہ اسے ایسے کم خرچ طریقے میسر ہوں جو اس کے جانور اور اس سے جڑے ہوئے کاروبار کا تحفظ کر سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں خاندانوں کا روزگار کھلے دودھ سے وابستہ ہے، جو پاکستان میں عام آدمی کی دودھ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
جواب میں حافظ انیب راشد نے انہیں آگاہ کیا کہ پاک-بینیلکس اوورسیز چیمبر جو کہ بیلجیئم میں رجسٹرڈ ایک تنظیم ہے کو بنانے کا بنیادی مقصد ہی ان دونوں خطوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافے کیلئے کوشش کرنا ہے۔ بیلجیئم، نیدرلینڈ، جرمنی اور اس کے اردگرد موجود ممالک میں موجود زراعت اور ڈیری صنعت کی ترقی دنیا بھر میں ایک شاندار مثال ہے۔ اس لئے دونوں خطوں کے درمیان تعاون میں اضافے سے نہ صرف پاکستان میں موجود مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے بلکہ کاروبار کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
اس گفتگو میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ سب سے پہلے کراچی کی بھینس کالونی کو ایک ماڈل کے طور سامنے رکھا جائے اور ملکی اور غیرملکی تعلیمی اداروں کی مدد، رہنما ئی اور ڈی سی ایف اے کے تعاون کے ساتھ دودھ میں اضافے سے لے کر نئے پیدا ہونے والے جانوروں کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔