آسیہ پریوش، حیدر آباد
علی ہاتھ میں پکڑی فائل کو چارپائی پہ پھینکتے ہوئے خود بھی تھکا تھکا سا چارپائی پر گرگیا۔ ’’کیا ہوا علی، آج بھی نوکری کا کہیں سے آسرا نہیں ملا؟‘‘ علی کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے اس سے پوچھا۔ ’’نہیں امی، مجھے لگتا ہے کہ نوکری میری قسمت میں ہی نہیں ہے۔ مجھے تو اپنی ساری پڑھائی ضایع ہوتی دکھائی دے رہی ہے‘‘۔
’’نہیں بیٹا! ایسے نہیں کہتے اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہوتے‘‘۔ امی کے منع کرنے پر وہ خاموش ہوگیا۔’’علی آج پڑوس سے صابرہ اور جمیلہ آئی تھیں، وہ کہہ رہی تھیں کہ تم ان کے بچوں کو پڑھا دیا کرو‘‘۔
’’پڑوس کے بچے؟ یہ مجھے کیا ٹیوشن فیس دیں گے؟‘‘۔ پہلے سے شکستہ دل علی کا ماں کی بات سن کر منہ بن گیا۔
’’علی! یہ آج کل تمہیں کیا ہوتا جارہا ہے۔ مت بھولو کہ تم بھی کبھی انہیں بچوں کی طرح پڑھائی میں مدد کے لیے ادھر ادھر پھرتے تھے‘‘۔ ماں کی سچائی بیان کرنے پر علی کو بے اختیار بچپن کے وہ دن یاد آگئے جب پڑھائی میں مشکل پیش آنے کی وجہ سے غربت کے باعث اس کو کم فیس پر کوئی ٹیوشن پڑھانے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے اللہ کی مدد کے بعد ماں باپ کی دعاؤں اور اپنی انتھک محنت کے بل بوتے ایم فل کیا تھا۔ وہ اپنی سوچ پہ شرمندہ ہوگیا۔
’’دیکھو، بیٹا تم آج کل ویسے بھی فارغ ہو اس لیے اگر تم اپنی تعلیم سے انہیں فائدہ پہنچاتے ہوئے، وہ بھی بنا کسی لالچ اور غرض کے ان غریب بچوں کی پڑھنے میں مدد کر دو، تو اللہ تمہارے اس عمل سے خوش ہوکر تمہارے روزگار کے لیے کوئی در کھول دے‘‘۔ ماں کی بات سن کر علی کی آنکھوں میں چمک آگئی اور اس نے روزانہ رات کو ڈیڑھ گھنٹہ محلے کے بچوں کو پڑھانے کی رضامندی سے ظاہر کر دی۔
بچوں کو پڑھانے میں علی کو بہت مزہ آنے لگا۔ ان بچوں کو پڑھاتے پڑھاتے اسے ان باتوں کو بھی سیکھنے، سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کا موقع مل رہا تھا، جنہیں وہ زمانہ طالب علمی میں صرف پڑھتا تھا۔ وہ تاحال دن کو نوکری کے لیے بھٹک رہا تھا لیکن رات کو ٹیوشن پڑھنے والے بچوں میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔ دن کی خواری اور تھکن کے بعد رات کے ڈیڑھ گھنٹوں کے پرلطف لمحات نے اس کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا۔کچھ دنوں سے علی بہت پریشان اور الجھا الجھا سا پھررہا تھا۔ بچوں کو پڑھانے میں بھی اس کی عدم دلچسپی صاف ظاہر ہورہی تھی۔ آج تو اس نے گھر آئے بچوں کو بھی چھٹی دے دی۔ بچوں کے جانے کے بعد وہ سر تھامے بیٹھا تھا کہ ٹیوشن پڑھنے آنے والے دو بچوں تنویر اور توقیر کے والد اس کے پاس آئے ان کے سلام کرنے پر اس نے سر اٹھا کر ان کی جانب توجہ مبذول کی۔
’’وعلیکم السلام، شبیر چاچا، بیٹھیے‘‘، علی نے چارپائی پہ ان کے لیے جگہ بنائی۔’’کیا بات ہے بیٹا؟ آج کل کوئی پریشانی ہے؟‘‘
’’ارے نہیں چاچا، ایسی کوئی بات نہیں‘‘، علی نے پھیکی ہنسی سے انہیں ٹالنا چاہا۔’’پریشانی بتانے سے اگر ختم نہیں ہوتی تو دل کا بوجھ ضرور کم ہوجاتا ہے، اگر اعتماد کرو تو مجھے بتادو‘‘۔ شبیر چاچا کی بات سن کر اس کے دل کو حوصلہ ملا۔
’’دراصل چاچا آپ کو تو پتا ہے کہ اتنے وقت سے ادھر ادھر بھٹکنے کے باوجود مجھے کہیں نوکری نہیں مل رہی تو میں نے سوچا کہ کیوں نا کوچنگ سینٹر کھول لوں، ادھر ادھر معلومات کی ہیں۔ اب کوچنگ سینٹر کے لیے ایک جگہ پسند تو آئی ہے ، لیکن ایڈوانس، کرائے اور اوپر کے کچھ سامان کے لیے تقریبا ایک لاکھ چاہیے، گھر کے حالات تو آپ کے سامنے ہیں۔ دوست احباب ایک لاکھ کا قرضہ دینے کا رسک لینے کو تیار نہیں۔ اب سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں؟‘‘
علی کی پریشانی سننے کے بعد شبیر تھوڑی دیر کسی سوچ میں ڈوبے رہے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر کہ، ’’ابھی آیا‘‘ چلے گئے۔ ادھر علی چارپائی پہ لیٹ کر آسمان کے تاروں میں اپنے نصیب کا تارہ ڈھونڈنے لگا۔
’’یہ لو بیٹا‘‘ 5 منٹ کے بعد شبیر چاچا دوبارہ اس کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ ’’پورے ایک لاکھ ہیں۔ بیٹی کی شادی کا زیور بنوانے کے لیے کمیٹی ڈالی تھی، کل ہی پیسے ملے تھے۔ شادی میں ابھی ایک سال ہے، اس لیے ان پیسوں سے پہلے تم اپنی ضرورت پوری کرلو، اللہ تمہیں کامیاب کرے‘‘۔
’’چاچا لیکن‘‘، علی شبیر چاچا سے پیسے لینے میں کچھ ہچکچایا۔
’’کیوں بیٹا، جب تم بنا کسی لالچ اور غرض کے ہمارے بچوں کی پڑھنے میں اتنی مدد کررہے ہو تو کیا ہم تم کو اس مشکل میں اکیلا چھوڑ سکتے ہیں؟‘‘
’’چاچا میں یہ قرض آپ کو جلد سود سمیت واپس کردوں گا‘‘۔ شبیر چاچا کے بے غرض خلوص پر علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔’’نہ بابا سود جیسی حرام چیز کو میں نہیں ہاتھ لگاؤں گا‘‘۔ شبیر چاچا نے شفقت سے اس کی سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
اللہ کا نام لے کر علی نے اپنے جیسے ہی چند دوستوں کو ساتھ ملا کر کوچنگ سینٹر کھولا، اللہ کی مدد سے روز بروز ترقی ہوتی گئی، ماں باپ اور اپنوں کی پرخلوص دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان سب دوستوں کی ان تھک محنت اور علی کو ٹیوشن سے حاصل ہونے والی معلومات کا بھی بڑا حصہ تھا۔ سینٹر سے ہونے والی آمدنی کی بدولت علی نے ڈیڑھ سال میں ہی نہ صرف اپنے محسن شبیر چاچا سے لیا ایک لاکھ نہایت احسان مندی سے انہیں واپس کردیا بلکہ اپنے علاقے کے سامنے کسی خدا ترس انسان کے زمین خرید کے دینے پر وہاں پر چھوٹاسا ٹیوشن سینٹر بھی بنالیا جہاں پہ وہ کم وسائل کی وجہ سے تعلیم اور ٹیوشن سے محروم اپنے محلے کے بچوں کے ساتھ دوسرے غریب بچوں کو بھی پوری دلجمعی کے ساتھ مفت ٹیوشن پڑھانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔