قدرت اللہ شہاب، شہاب نامے میں رقم طراز ہیں ”ایک زمانے میں کشمیری مسلمانوں کی زندگی کی قانونی حیثیت مبلغ دو روپے تھی۔ اگر کوئی سکھ یا ڈوگرا کسی مسلمان کو جان سے مار ڈالتا تھا تو عدالت قاتل پر سولہ سے بیس روپے تک جرمانہ عائد کر سکتی تھی دو روپے مقتول کے لواحقین کو عطا ہوتے تھے اور باقی رقم خزانہ عامرہ میں داخل ہوتی تھی۔ آپ اندازہ کیجئے کہ سامراجی ظلم روا رکھنے والے انگریز سرکار اس کے ہندوستانی حاشیہ بردار حکمران طبقوں کو اپنی بے حسی اور ظالمانہ رویئے پر کبھی ندامت محسوس نہیں ہوئی۔ انگریزوں نے جب ڈوگروں کے ہاتھ 75لاکھ روپے میں کشمیر کو فروخت کیا، عالمی مہذب اقوام کے حکمرانوں کو کبھی خفت محسوس نہ ہوئی، امریکا نے جب دنیا بھر کی کمزور قوموں کو اپنی معاشی اور فوجی قوت سے روندا، عراق پر بلاجواز حملہ آور ہوا، افغانستان پر قبضہ کیا، 48ممالک کی فوجیں براجمان ہوئیں، انسانوں کی خون کی ندیاں بہا دیں، دنیا کو ایٹمی بارود سے پراگندہکر دیا۔ اقوام متحدہ قوانین کی دھجی دھجی جمع کرتے ہوئے تماشہ دیکھتی رہی، سرمایہ داری نظام کے تحت اسٹاک مارکیٹوں میں سٹہ بازی کے ذریعے تیل کی قیمت پر جوا کھیلتے ہوئے 147ڈالر فی بیرل لے جانے اور دنیا کو سٹہ بازی کے ذریعے لوٹنے اور بحران میں مبتلا کرنے، امیر اور غریب کے فرق میں خوفناک فاصلہ قائم کر کے اور خلائی اسٹیشنوں میں رہنے کے خواب دیکھنے والے ان عالمی اجارہ داروں اور تہذیب و تمدن کے مغربی داعیوں کو اپنے کرتوتوں پر کوئی شرم محسوس نہ ہوئی، کوئی بین الاقوامی ضابطہ یا قانون یاد نہ رہا اور پھر ان کے ذہن کا دیوالیہ پن دیکھیں کہ کرکٹ جیسے کھیل کہ جس کے لئے برصغیر کا عام آدمی زبردست دلچسپی رکھتا ہے۔ تمام تر خوف و خدشات، اپنی بے مائیگی، بے چارگی اور مسائل کے باوجود کھیل کو زندہ رکھنا چاہتا ہے لیکن دنیا کے حکمراں کھیل میں بھی غریب عوام کو خوش رہنے کا موقع فراہم نہیں ہونے دیتے۔ سٹہ بازی کے ذریعے دنیا چلانے اور برباد کرنے والے عیاروں نے پاکستان کے تین کھلاڑیوں محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف کو اسپاٹ فکسنگ میں ایک سال سے زائد سزا اور جرمانہ کرنے کے بعد ان کی زندگی تباہ کر دی لیکن مذکورہ عالمی لوٹ مار کے تناظر میں کوئی بولنے والا نہیں۔ ہوس کی خاطر سٹہ بازوں نے کرکٹ میں او ڈی آئی اور ٹی 20 متعارف کرا کے سٹہ بازی کو دانستہ فروغ دیا لہٰذا جب تک عالمی نظام کو نہ سمجھا گیا ڈاکو چوروں کو پکڑتے رہیں گے اور ہم نہیں سمجھ پائیں گے کہ جہاں سب چور ہوتے ہیں وہاں کوئی چور نہیں ہوتا۔ جہاں عالمگیر معاشی نظام اقوام عالم کو بحران در بحران کے ”بلیک ہول“ کی جانب لئے جا رہا ہے وہاں دنیا کے گیارہ سو مالدار ترین سٹہ بازوں نے جس جوئے، منافع اور سود کے نظام کو تشکیل دے رکھا ہے اس میں کھیل، فزیکل کلچر جنسی ہیجان کی صورت شامل کردیا گیا ہے۔ دنیائے کرکٹ میں سب سے بڑی سٹہ بازی کی آماجگاہ ممبئی ہے جہاں ایک صدی سے سٹے بازی کا بھاؤ تاؤ جاری ہے اب وہاں کھلاڑیوں کی بھیڑ بکریوں کی طرح خریداری بھی ہوتی ہے۔ بولی لگا کر کھلاڑیوں کو خریدنا مہذب غلامی ہے۔ یہ سب کچھ آئی سی سی کے نزدیک جائز ہے۔ یہ بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ بھارت میں خاص طور پر فزیکل کلچر کو فروغ دینے کی بجائے جنسی کلچر بڑھانے کے لئے چوکے اور چھکے لگانے پر دوشیزاؤں کا بے ہنگم رقص بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کھیل اب صحت مند معاشرہ پیدا کرنے کے برعکس جنسی ہیجان برپا کرنے میں مصروف عمل کر دیا گیا ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ سٹہ بازی کے لئے ٹیسٹ میچوں کی جمالیات ختم کرنے کیلئے اول اول 50اوورز کا انعقاد کیا گیا۔ اس کھیل کی چکا چوند بڑھانے کے لئے T20 کا آغاز کر دیا گیا۔
اس چکا چوند کھلاڑیوں کی نیلامی اور جوئے کے کلچر میں ممبئی فلم انڈسٹری کی سوچاند کی چاندنی کو بھی شامل کردیا گیا۔ چنانچہ سرمایہ داروں کو پراکسی کے طور پر بولی لگانے کے لئے شاہ رخ، پریٹی زینٹا اور شلپا شیٹھی جیسے فنکاروں کو نیلام گھر اور سٹہ بازی پر مامور کر دیا گیا۔ اس سٹہ بازی کے قانونی بازار میں دنیا کے سب سے بڑے جواری جارج سورس نے ایک دن میں برطانیہ کی اسٹاک مارکیٹ میں 2.5ارب ڈالر جیت لئے اس دن کو بلیک فرائیڈے کہتے ہیں سٹہ بازی کے ایسے عالمی ماحول میں آئی سی سی محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ اسپاٹ فکسنگ کے الزام میں اپنے انفارمر مظہر مجید کے ہذیان بکنے اور لکھنے کی پاداش میں گرفتار کر کے اور ان کو سزا سنا کر ان کا کیریئر تباہ کر دیا ہے اور اب کوئی بولنے والا نہیں۔ آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو ہارون لوگارٹ نے دانستہ ان دنوں بیان دیا تھا کہ اگر پاکستانی کھلاڑیوں کو سزا نہ ہوئی تو ان کو مایوسی ہوگی۔ ظاہر ہے نام نہاد آزاد ٹریبونل جو اس سلسلے میں قائم کیا گیا تھا اس کے سربراہ مائیکل بیلوف آئی سی سی کے تنخواہ دار ملازم ہیں۔ تین کھلاڑیوں کے ساتھ زندگی برباد کرنے کی ناانصافی تو ایک طرف دوسری جانب مظہر مجید کو آئی سی سی کے انفارمر کی حیثیت سے بولنے کی کھلی اجازت تھی اور ہمارے کھلاڑیوں پر زبان بندی تھی۔ ایک زمانے میں امریکا نے اپنی جاسوسی اور پیش گوئی کرنے والی جین ڈکسن کواس کام پر لگا رکھا تھا کہ وہ ہر سال ان کی منصوبہ بندی کے مطابق آئندہ رونما ہونے والے واقعات کو دھمکی کے طور پر ذکر کر دے تاکہ مقروض اور کمزور ممالک کی سیاست ان کے خوف کے مطابق چلے۔ اس تناظر میں فرانس کے ایک بڑے فلاسفر ژاں پال سارتر نے کہا تھا ”ہم پہلی دنیا کے لوگ انسانی حقوق کی بڑی بات کرتے ہیں۔ تیسری دنیا میں کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اسے مروا دیتے ہیں۔“ باالفاظ دیگر یہ عالمی نظام ناانصافی، کرپشن اور جنگوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتا اسی میں عالمی سٹہ بازوں اور اجارہ داروں کا فائدہ ہے۔
برطانیہ کے مشہور میگزین ”دی وزڈن کرکٹر“ کے رپورٹر گریگری سمپسن نے ہارون لوگارٹ سے انٹرویو لیا ایک سوال کے جواب میں تسلیم کیا کہ ”بکیز انڈر 19 کے کھلاڑیوں کو شروع ہی میں پھانستے ہیں پھر میچور ہونے تک ساتھ رہتے ہیں اور وقت آنے پر انہیں استعمال کرتے ہیں۔ اندازہ کیجئے۔ ہارون لوگارٹ کرکٹ میں کرپشن کے ارتقاء کے متعلق کتنا علم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھ لیجئے کہ آئی سی سی کا نگران یونٹ دس برس سے کیا کررہا تھا اگر پاکستان کے مذکورہ کھلاڑی آئی سی سی کے ہیجان خیز دائرے کے اندر رہ کرکچھ کرتے تو انہیں کچھ نہ کہا جاتا کیونکہ عیاشی بحکم آپس میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ گزشتہ سال ہرشل گبز جنوبی افریقا کے معروف بلے باز کی کتاب ”ٹو دی پوائنٹ“ مارکیٹ میں آئی انہوں نے تہلکہ آمیز انکشافات کر کے آئی سی سی کی زبان بند کر دی۔ مذکورہ کتاب میں ہرشل گبز نے اپنی ٹیم پر مختلف نوعیت کے سنگین الزامات عائد کئے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ٹیم میں گروپ بندی، جنسی بے راہ روی، اسکینڈلز اور شراب و منشیات نوشی عام ہے۔ خاص طور پر جوئے کا بھی ذکر کیا ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔ ”ہنسی کرونسے میرے کمرے میں آئے اور کہا کہ بھارت میں ایک شخص نے کل میچ ہارنے کے لئے رقم پیش کی ہے اگر تم 20رنز کے اندر آؤٹ ہو جاؤ تو پندرہ ہزار ڈالر پکے ہوں گے“ اس سے افزوں آئی سی سی کے لئے مزید لکھنے کو کیا باقی رہ گیا۔ ہندوستانی کھلاڑیوں کی سٹہ بازی کی جانب آئی سی سی نے آنکھیں موند رکھی ہیں کیونکہ ہندوستان سٹہ بازی کی آماجگاہ ہے اور کرکٹ بورڈ مضبوط ہے حالت یہ کہ ہمارے کھلاڑیوں کے مستقبل کے بارے میں موجودہ کرکٹ بورڈ بھی بات کرتے ہوئے گھبراتا ہے دوسری جانب سامراجی نفع کمانے والے ادارے گنہگاروں سے ڈرتے ہیں لیکن خود گناہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس لئے آج کوئی تبصرہ نگار کوئی کمنٹری کرنے والا بڑا کھلاڑی پیسوں کی خاطر سچ بولنے سے کتراتا ہے اور یہ تین کھلاڑی مارے مارے پھر رہے ہیں حیرت ہے کہ مجرم بھی ان کی تذلیل کر رہے ہیں۔