• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’حضرت حمادا للہ ہا لیجوی‘ ممتاز عالم دین، آزادی کی تحریکوں کے ہراول دستے میں شامل رہے

سر زمین سندھ بڑی مردم خیز ہے مااس کی کوکھ سے علمائے سو سمیتبے شمارعظیم شخصیات نے جنم لیا جنہوں نے خطےمیں علم و دانش کا وہ دیپ جلا یا جس کی روشنی سے علم عرفان کی کرنیں پھوٹیں۔انہی میں سے حضرت حما داللہ ہالیجویؒبھی ہیں۔ وہ اپنے وقت کے کا مل ولی اللہ اور ممتاز عالم دین تھے جو نہ صرف ظاہری علوم پر دسترس رکھتے تھے بلکہ با طنی علوم و رموز میں بھی اعلیٰ مقام پر فا ئز تھے۔ ان کی ولا دت با سعادت پنوعا قل سے تقریباً 06 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع گا ئوں ہالیجی شریف میں 1301ہجری بمطابق 1881/82 میں ایک مذہبی گھرانے میں ہو ئی۔ ان کے والد کا نام میاں محمود ؒ اور داداکا نام گرامی حما داللہ ؒ تھا ان کے آباء اجداد را جستھان کےشہر اجمیر شریف کے رہنے والے تھے۔ 

 سندھ کے خطے میں آمد کے بعدیہ خا ندان انڈ ھڑ قبیلے کے نام سے مو سوم ہوا ’’تجلیات ہا لیجوی ‘‘کے مرتب نے بھی اس خاندان کا اسی طرح تعارف کروایا ہے۔ مؤلف کے مطابق ’’حضرت والا نے ایک مرتبہ خود فرما یا کہ ایک شخص اندراج نے اجمیر شریف سے نقل مکانی کر کے جھنگ کے اطراف و مضافات میںسکونت اختیار کی تھی ۔ساتویں صدی ہجری میں میاں مو سیٰ نواب ؒ مشہور سہروردی بزرگ حضرت شیخ بہا ئو الدین ذکریا ملتانی ؒ کے بھا نجے اور خلیفہ تھے انہی کی کی دعوت تبلیغ کی وجہ سے یہ قبیلہ دا ئرہ اسلام میں داخل ہوا جس نے بعد میں اسلام کی بہت خدمت کی۔

لفظ ’’اندراج‘‘ بگڑ کر’’ انڈ ھڑ ‘‘کے نام سے معروف ہو گیا ۔ایک اور بات بھی مصنف نے لکھی ہے کہ اسی قوم کے بعض افراد ریاست بھاولپور سے ترک وطن کر کے اس دیہات میں آباد ہوئے۔ان کے والد بزرگوارکا اس وقت انتقال ہوا جب وہ ابھی صغیر سنی میں تھے۔ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری انکے چچا نے اٹھائی ۔ انہوں نے ظاہری تعلیم مو لا نا عبدالقادر مہر مدرسہ سومران شریف سے حاصل کی۔کچھ عرصہ مو لا نا مظہر الدین کے والد ما جد حضرت مولانا قمر الدین ؒ سے اور اس طرح کچھ عرصہ مو لا نا مظہر الدین کے نانا سے بھی تحصیل علم کیا۔

ان کا قد مبارک لمبا اورشخصیت رعب دار تھی۔ جسم مبارک قدرے بھا ری چہرہ نورانی اور رنگ گندمی تھا آنکھیں اور نگاہ میں محبت الہیٰ اور عشق الہیٰ کے آثارنظر آتے تھے۔ریش مبارک گھنی تھی ۔حج پر جا نے سے پہلے سر کے بال دراز اور پٹے دار تھے لیکن حج سے واپسی کے بعد آپ نے اپنے بال صاف کرا دیئے تھے۔ ہمیشہ سادہ لباس زیب تن کرتے تھے، سردیوں میں کھدر کا لباس پہنتے تھے ۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے جانے سے قبل پگڑی با ندھتے تھے۔ حج سے واپسی پر ٹوپی کے اوپر متین چار وال پگڑی با ندھتے تھے ۔آپ کی مجلس اور صحبت میں جو بھی شخص حا ضر ہو تا ،آپ کی نگاہوں کی قوت کشش سے متاثر ہوکران کے حلقہ ارادت میں دا خل ہو جا تا تھا۔انہوں نے کچھ عرصہ ابراہیم گو ٹھ ،گھوٹکی اور پیر جھنڈا میں بھی تعلیم حاصل کی۔ 

ٹھیڑی شریف ( ضلع خیرپور ریا ست ) کے مدرسہ میں بطور مدرس خدمات ا نجام دیتے رہے۔ ان کا خا ندان سلسلہ سہروردی سے تعلق رکھتا تھا لیکن آپ نے جو رو حانی منازل طے کیں وہ سلسلہ قا دریہکے مطابق تھیں ۔ انہوں نے سلسلہ قادریہ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ لا کھوں لوگوں کو تصوف کے رنگ میں رنگا اوران کے تمام ارادت مند اور عقیدت مند قا دری سلسلے میں منسلک ہو گئے اور اپنی زندگی ظاہری و با طنی علوم کے لئے وقف کر دی۔ آپ ایک مرجع الخلائق شخصیت تھےانہوں نے وری زندگی عوام کی ظاہری اور با طنی اصلا ح کے لئے وقف کر دی ۔وہ دن اور رات کا زیادہ حصہ مسجد میں گزارتے۔

حضرت حماد اللہ ، تحریک آزادی کے اہم ستون حضرت مو لا نا تاج محمد امرو ٹی ؒ سے دست بیعت تھے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہو ئے چونکہ حضرت مو لا نا تاج محمود امروٹی ؒ چونکہ تحریک آزادی اور فرنگیوں کو بھگانے اور ملک و ملت کو آزادی دلا نے میں سرگرم تھے تو آپ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔۔تحریک آزادی میں جمعیت علمائے ہند پیش پیش تھی سندھ میں صو بائی شاخ آپ کے مرشد سید تاج محمود امروٹی ؒ کی صدارت میں ۱1920ء میں قائم ہو ئی جس کے پہلے سیکریٹری فتح محمد سیوہا نی مقرر ہو ئے ۔صو بہ سندھ میں کئی اہم شہروں میں ا س کی شا خیں قائم ہو ئیں۔ جب شکارپور ضلع کی برانچ قائم ہو ئی تو آپ جمعیت اس کے ضلعی صدر منتخب ہوئے۔ 

تحریک خلافت میں پیر تراب علی شاہ ،مولا نا حما دللہ ہا لیجوی ،دین محمد وفائی ،حکیم فتح محمد سیوہانی اور لا تعداد اسمائے گرامی ایسے ہیں جنہوں نے اس تحریک کو سندھ میں فروغ دینے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کیا۔ جمعیت علمائے سندھ نےترکی کے سلطان عبدالحمید کو خلیفہ اعلیٰ تسلیم کیا اور اس کی خلافت کو شرعی خلافت قرار دیاگیا۔اس کے لیے اپریل۱1923ء ؁ کو ایک قرار داد بھی پا س کی گئی اور برطا نیہ کی وعدہ خلافی پر بھی جمعیت نے مذمتی قرارداد پیش کی تھی۔ حضرت حماد ہالیجوی نےانگریزی راج کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اسی طرح جتنی بھی آزادی کی جتنی بھی تحریکیں تھیں ، آپ ہر تحریک کے ہراول دستے میں شامل رہے۔ 1942ء میں پنوعا قل میں حماد ہالیجوی کے تعاون سے مر کزی جمعیت علمائے ہند کا اجلاس اور جلسہ منعقد ہوا جس میں سرتاج مجاہدین شیخ السلام حضرت مو لا نا سید حسین احمد مدنی صدر المدرسین دارالعلوم دیو بندو صدر جمعیت علمائے ہند اور امام انقلاب حضرت مولا نا عبید اللہ سندھی بھی تشریف لا ئے تھے ۔نا ظم اعلیٰ جمعیت علمائے ہند مو لا نا حفظ الرحمن سیوہاری ؒنیز دیگر علمائے حق بھی اس میںشریک ہو ئے۔

1948ء میں آپ نے حج بیت اللہ کی سعادت حا صل کی۔حضرت حما داللہ ہا لیجویؒ نے اپنے ظاہری و با طنی علوم و فیو ض سے امت محمدیہ کو کثرت سے مستفیض فرما یا۔ ان فیو ض اور انوارات کا مرکز ہالیجی شریف تھاان کے علم و عمل سے بدعدات اور ہندو رسومات کی بیخ کنی ہو ئی۔ ان کے مریدین نے دینی مدارس و مکاتب قائم کئے، وہ حضرت کی نسبت سے ’’حمادیہ ‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔حضرت کا فیض سندھ ،ہند،افغا نستان ،ایران و دیگر ممالک میں پھیلا ہو اہے ۔ اس زمانے میںہا لیجی شریف نہصرف رو حانی اور تصوف کا مر کز تھا بلکہ اب بھی ہے ۔ہا لیجی شریف میںسیا سی اور اسلا می تحاریک بھی متحرک رہیں۔حضرت ہا لیجوی ؒ نہ صرف رسمی و رواجی تصوف کے علمبردار تھے بلکہ آپ نے بدعدات اور رسومات سے پاک خا لص تو حید و سنہ کے مطا بق اپنی خا نقاہ کی اسا س رکھی۔

آپ نے علمی خدمات بھی سر انجام دیں اور بہت ہی گراں قدر تصانیف مرتب کیں جس میں لغات القر آن ،ھشت مسائل ،کشاف پر حا شیہ ،قصیدہ بانت سعاد کا شرح ،سبع معلقات کا حا شیہ ،قصیدہ بر دہ کا نظمی شرح بھی لکھا اسماء الحسنیٰ الشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی شرح وغیرہ بھی شامل۔ آپ عرصہ دراز سے مختلف بیماریوں کا شکار تھے لیکن بڑی ہمت اور خندہ پیشانی سے رو حانی فیض جا ری رکھا آخری عمر میں جسمانی مرض کے سبب 18 اپریل 1962ء کو ہا لیجی شریف میں اس دار فا نی سے دارالبقاء کی طرف کوچ فرمایا۔ آپ کی قبر مبارک خا نقاہ کی قدیمی مسجد کے شمال میںبنائی گئی جماعت کے اتفاق رائے سے حضرت حما داللہ ہا لیجوی ؒ کی نماز جنا زہ آپ کے جا نشین صا حبزادے محمود اسعد نے پڑھائی۔

تازہ ترین